• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس کی تحقیقات کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرچکا ہے، شروع میںاس کے اثرات زیادہ دیکھنے میں نہیں آئے لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے اس کے اثرات ملکی معیشت پر واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملک میں سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی وجہ سے معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں نئی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے، ٹیکسٹائل کے بحران کی وجہ سے 150 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں اور بینکوں کا ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں میں تقریباً25 فیصد نادہندہ ہوچکا ہے، صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف پی سی سی آئی کے لاہور میں منعقدہ ’’بزنس مین کنونشن‘‘ میں اپٹما کے چیئرمین عامر فیاض نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایکسپورٹرز کے 200 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی اور بجلی و گیس کے نہایت اونچے ٹیرف کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ اسپنڈلز (150 ٹیکسٹائل ملز) بند ہوچکے ہیں جس کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر میں 30 فیصد مزدور بیروزگار ہوگئے ہیں۔ تجارت کو فروغ دینے کیلئے 180 ارب روپے کے حکومتی پیکیج میں سے اس سال بجٹ میں صرف 4 ارب روپے مختص کئے گئے لیکن اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جاسکا ہے، حکومت نئے ٹیکس دہندگان کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کا بوجھ اور اپنے غیر حقیقی ٹیکس اہداف کو پورا کرنے کیلئے ایف بی آر اہلکاروں کے ذریعے بزنس کمیونٹی پر دبائو ڈال رہی ہے جس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی میں عدم اعتمادی اور بے چینی پائی جاتی ہے جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے نقصان دہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں اپنے 23 فیصد شیئر سے محروم ہوچکا ہے جس کی بڑی وجہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ ہماری کاٹن کی پیداوار میں گزشتہ کئی سالوں سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملوں کو مطلوبہ کاٹن بھارت اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرنا پڑرہی ہے جو حکومتی اضافی ٹیکسز اور ڈیوٹی کی وجہ سے مہنگی پڑتی ہے۔
پاکستان کے پالیسی میکرز کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 11 ملین بیلز پر آگئی ہے جبکہ بھارت ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ذریعے کپاس کے نئے بیجوں سے گزشتہ 5 سالوں میں اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے دگنا 36 ملین بیلز کرچکا ہے۔ ہماری ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے گرکر 20 ارب ڈالر اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 14 ارب ڈالر سے کم ہوکر بمشکل 11 ارب ڈالر رہ گئی ہیں جبکہ ایل این جی اور سی پیک مشینری کی امپورٹ کی وجہ سے تجارتی خسارہ ریکارڈ 35.6 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے اور بیرونی خسارہ 16.3 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کو جون 2017ء میں 3.6 ارب ڈالر معاہدوں کی مد میں ادا کرنے تھے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دبائو پڑے گا۔ اپنے مقابلاتی حریفوں کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ویت نام نے دنیا میں سب سے زیادہ 107 فیصد ایکسپورٹس گروتھ حاصل کی جبکہ بنگلہ دیش نے 24 فیصد، بھارت نے 31 فیصد اور سری لنکا نے 20فیصد ایکسپورٹس گروتھ حاصل کی لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں گروتھ ہونے کے بجائے 11 فیصد کمی آئی ہے۔ میں اپنے اُن ناقدین کی توجہ اِن اعداد و شمار کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا جو کہتے ہیںکہ پوری دنیا میں مندی اور کساد بازاری کی وجہ سے ایکسپورٹس میں کمی آئی ہے جبکہ مذکورہ ممالک نے انہی حالات میں اپنی ایکسپورٹس میں نہایت متاثر کن گروتھ حاصل کی ہے۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے اپنے مالیاتی پالیسی جائزے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2016-17ء میں ملکی ایکسپورٹس اور ترسیلات زر میں کمی ہوئی جبکہ امپورٹس میں 17.7فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے بیرونی ذخائر جو 2015-16ء میں18.1ارب ڈالر تھے، 2016-17ء میں کم ہوکر 16.1ارب ڈالر پر آگئے ہیں جبکہ اس عرصے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 148.5 فیصد اضافے سے ریکارڈ 12.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2016-17ء میں سروس سیکٹر میں 6 فیصد، زرعی شعبے میں 3.5 فیصد اور بڑے درجے کی صنعتوں میں 6.3فیصد سالانہ گروتھ دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضے ریکارڈ 748 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ 2015ء میں یہ قرضے 446 ارب روپے تھے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے وضاحت کی کہ زیادہ تر نجی شعبے کے قرضے پلانٹ، مشینری اور انفرااسٹرکچر منصوبوں کیلئے لئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں 2017-18ء میں افراط زر کی شرح ہدف کے اندر 4.5 سے 5.5 فیصد رہنے کی توقع کی گئی ہے۔ملکی معیشت کے پھیلائو کا جائزہ لینے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہمارا صنعتی (مینوفیکچرنگ سیکٹر) سکڑ رہا ہے جبکہ سروس سیکٹر فروغ پارہا ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق ملکی سروس سیکٹر جس میں ٹیلی کمیونی کیشن، آئی ٹی، کمپیوٹر، بینکنگ، انشورنس اور خدمات کے نمایاں شعبے شامل ہیں، میں سالانہ 7.19 فیصد گروتھ ہوئی ہے اور یہ سیکٹر جی ڈی پی کا 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے لیکن حکومت کو اپنے زرعی اور صنعتی سیکٹر پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ یہ سیکٹرز ملکی ایکسپورٹس اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔موجودہ حکومت کا 2016ء بیرونی قرضے لینے کا ایک ریکارڈ سال تھا جب پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضے 72.98ارب ڈالر (7.4 کھرب روپے) تک پہنچ گئے۔ اس سال حکومت نے گزشتہ مالی سال سے 7.9 ارب ڈالر اضافی قرضے لئے جبکہ مقامی بینکوں سے 3.1 کھرب روپے (30 ارب ڈالر) کے قرضے بھی لئے گئے۔ پاکستان کے بیرونی اور مقامی قرضوں کا مجموعہ کیا جائے تو اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے گزشتہ 3 سالوں کے دوران 55 ارب ڈالر کے قرضے لئے جن میں چین سے لئے گئے قرضے شامل نہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق قرضوں میں تیزی سے اضافے کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ رواں سال 2017ء میں ہمارے بیرونی قرضے بڑھ کر 75.54 ارب ڈالر (7.9کھرب روپے) تک پہنچ جائیں گے جس میں سے ہمیں آئندہ 18 ماہ میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو 11.5ارب ڈالر کے قرضے واپس بھی کرنے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضے لینے کی حکومتی حکمت عملی کے پیش نظر مالی سال 2017-18ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 79.35 ارب ڈالر (8.3 کھرب روپے) اور 2020ء تک 87.1ارب ڈالر (9.12 کھرب روپے) کی خطرناک حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان کے قرضوں کی حد کے قانون (Debt Limitation Act)کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی۔
لیکن ہمارے قرضے تجاوز کرکے 65 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ اسکے علاوہ حکومت کے 414ارب روپے کے گردشی قرضے اور نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو چلانے کیلئے 500 ارب روپے سالانہ ادا کرنا بھی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجز ہیں جس کی وجہ سے ملکی معیشت دبائو کا شکار ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک کو جلد از جلد سیاسی عدم استحکامی اور غیر یقینی صورتحال سے نکالے۔

تازہ ترین