• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ آگیا، ایک نئی عدالتی تاریخ کے پس منظر میں سیاست کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو فیصلے کی روشنی میں تاحیات میدان سیاست سے نکال باہرکیا۔ اپوزیشن جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکن شاداں ہیں مبارک بادیں دے اور وصول کر رہے ہیں مٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں ایک جشن کا سماں ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کے کارکنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہے، سوگ ہے، پُرسا دینے والوں کا ایک ہجوم ہے۔نواز شریف سے محبت کرنے والے کارکن شدت غم سے نڈھال ہیں بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں پاکستان کو انتشار سے بچا لیا گیا اورعدالتی انقلاب آگیا اور کرپشن سے پاک پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ’’تاریخی فیصلے‘‘ اپنے گہرے اثرات دیر تک معاشروں پر چھوڑتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں روشنی کی ایسی کوئی کرن نظر نہیں آتی جس پر امید کی ایک نئی عمارت کی بنیاد رکھی جاسکے۔ ہر روز ایک نیا فیصلہ آئے گا، مٹھائیاں بانٹنے اور کھانے والے اپنی جانیں بچانے کے لئے مزاروں پر چڑھاوے چڑھائیں گے احتجاج ہوگا، نفرت بڑھے گی اور تعصب پیدا ہوگا، پاکستان پھر بدل رہا ہے ، تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ کچھ سیاسی پناہ گزیں خاموشی سے بیرون ملک پہلے ہی چھپ کر بیٹھے ہیں کچھ بھاگنے والے ہیں۔ اب احتساب کا جو پہیہ گھوما ہے یہ رکنے والا نہیں۔ قوم کا لُوٹا پیسہ واپس آئے گا، بڑی بڑی سیاسی کاروباری شخصیات کا احتساب ہوگا۔ مبارکبادیں دینے اور مٹھائیاں کھانے والے بھی پریشان ہیں۔ آنے والے دن پاکستان کی سیاست پر بڑے بھاری ہیں۔ حالات یک لخت تبدیل ہوگئے سپریم کورٹ کے ’’ تاریخی فیصلے‘‘ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ تو بدل گئی مگر وطن عزیز کی تقدیر بدلنا ابھی باقی ہے۔بقول چودھری نثار علی خان ’’ حالات بہت گمبھیر ہیں ہمیں صرف اپنا نہیں ملک کا تحفظ کرنا ہے۔ میاں صاحب اگر ہم ہارے بھی تو آپ قوم کو یک جا کریں، کسی قسم کے انتشار کا موجب نہ بنیں، گہرے تاریک بادل پاکستان کے گرد منڈلا رہے ہیں۔ مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو یک جا ہونا پڑے گا۔ سیاسی پارٹیوں اور قوم سے التماس کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرلیں۔ نواز شریف اپنے آس پاس موجود ساتھیوں کے مشورے پر عمل نہ کریں، سیاست بہتان بن کر رہ گئی ہے۔ گالم گلوچ کی سیاست پسند نہیں۔‘‘ آنے والے دنوں میں پاناما کیس کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے پاکستان پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے تو ذرا غور کیجئے تمام سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر کھوکھلی، منقسم خیالات کا مجموعہ، بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لوگوں کا ایک ہجوم ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بیشتر پناہ لینے والے نام نہاد لیڈر ذاتی مفادات کا شکار ہیں۔ ماضی کی مقبول ترین جماعت پیپلز پارٹی زوال کی انتہائی نچلی سطح پرکھڑی ہے ، پی ٹی آئی کی قیادت خود احتساب کے شکنجے میں جکڑی نظر آرہی ہے اورکڑے احتساب سے گزرنے والی ہے مذہبی جماعتیں مسلکی بنیادوں پر تقسیم اور ایم ایم اے کو دوبارہ فعال کرنے کے لئے متحرک مگر برسراقتدار آنے کے امکانات بالکل معدوم اور انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی شرف قبولیت حاصل نہیں ہوگا پاکستان کے عوام کے رویئے کا عمومی تجزیہ کریں تو آج بھی درہ خنجراب سے لے کر کراچی تک لوگ شریف خاندان خصوصاً میاں محمد نوازشریف سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں پنجاب میں ہوتی ترقی نظر آتی ہے۔ اپنے مسائل کے حل کی ایک امید نظر آتی تھی۔ قطع نظراس کے کہ نواز شریف کی سیاسی کمزوریاں اور ذاتی خامیاں کیا تھیں انہیں کن دوست نما دشمنوں نے ڈبویا کوئی بین الاقوامی سازش تھی یا اندرونی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے چودھری نثار جیسے مخلص دوستوں کو نظر انداز کرکے دوسروں پر تکیہ کیا اور آج ایک بار پھر وہ اوران کا پورا خاندان شدید بحرانی صورت حال سے دوچار ہے۔ یاد رکھئے کہ پاکستان کی سیاسی بقا کی جنگ صحیح معنوں میں اب شروع ہوئی ہے۔ یہ وقت صرف نون لیگ پر ہی نہیں آیا تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھاری گزرنے والا ہے۔ سیاسی تجزیہ تو یہی کہتا ہے کہ سب اپنی خیر منائیں عدالتی انقلاب آگیا دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجنا وی مرجانا۔ ملک ایک بار پھر بہت بڑے سیاسی بحران کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں اس تاریخی فیصلے کی روشنی میں ایک بار پھر قومی مفاد میں این آر او کی طرف بڑھیں گی ۔ اورایکا کرکے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کریں گی، ہڑتال ، احتجاج اور معافی کی طلب گار ہوں گی ایک بڑا سیاسی بحران سامنے کھڑا ہے جو خلا پیدا ہوگیا پُر کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ آج مرحوم پیر شاہ آف مردان شریف پیر پگاڑا یاد آرہے ہیں جو ہمیشہ فوجی بوٹوں کی چاپ سے ڈراتے اور کہتے جو بچے گا وہی حکومت کرے گا، حالات اسی طرف جارہے ہیں۔ شاید حالات کو سیاسی طور پر سنبھالنا اتنا آسان نہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ جو نظر نہیں آرہا وہی ہوگا۔ یہ وقت نزع ہے انتشار سے بچئے ، متحد رہئے، اللہ نہ کرے کوئی نیا تماشا لگ جائے جس کے امکانات بہت واضح ہیں۔ ملکی سرحدیں غیر محفوظ اور فورسز کے جوان ہرلمحہ قربانیاں دے رہے ہیں ایسے حالات میں سیاسی خلا بہت بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اللہ نہ کرے انصاف کی دیوار پرکوئی دوبارہ گندے کپڑے لٹکائے۔ بہت بڑا انتہائی سخت فیصلہ ہوگیا ہے۔ سب دا بھلا سب دی خیر۔ کی دعا مانگئے۔
عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، آئندہ انتخابات میں عوام اپنا فیصلہ سنائینگے،2018 ء کے عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ ڈر ہے کہ انصاف کا جو سلسلہ شروع ہواہے وہ تھم نہ جائے اور ہم پھر ’’وہی چال بے ڈھنگی‘‘ کے مصداق خستہ حالی میں حالات کےرحم وکرم پر خار دار راستوںکا سفر نہ کرتے رہیں۔ عدالت کا فیصلہ ہمت ہارنے کا نہیں، امید باندھنے کا ہے اگر احتساب کا سلسلہ شریف خاندان پر ختم ہوگیا تو عوام کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی۔ ان کا یقین انصاف فراہم کرنے والے اداروں اور اس نظام سے اٹھ جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد عدالتوں کی ذمہ داری میں اضافہ ہوگیاہے، عوام توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ بددیانت اور بدنیت سیاسی اشرافیہ، کرپٹ افسر شاہی جرنیلوں، ججوں اور ملکی دولت لوٹنے والے لٹیروں سے ان کی جان چھڑائے گی۔ آنے والے دن ثابت کریں گے کہ عدالت کا ’’تاریخی فیصلہ‘‘ ملکی سیاست پر تاریخی اثرات مرتب کرے گا یا تاریخ کی دبیز تہہ میں دب کررہ جائے گا۔

تازہ ترین