• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28 جولائی 2017ء پاکستان میں ایک تاریخ ساز دن مانا جائے گا، جب تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے میاں محمد نواز شریف کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے پاناما کیس میں متفقہ طور پر نا اہل قرار دے دیا، اُن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ عدالت نے وزیراعظم کو فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ نے کا حکم بھی دیا، سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے عدالت کو غلط دستاویزات فراہم کیں جس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے میاں محمد نواز شریف کو صادق اور امین نہیں سمجھا تھا مگر تین جج صاحبان نے مزید تحقیق کی ضرورت محسوس کی، جس پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی اور اس میں مختلف مگر متعلقہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا اور اُس کو 60 دن کا وقت دیا گیا، اُن کو تحفظ فراہم کرنے، ان کو عدالتی ادارے میں اجلاس منعقد کرنے اور ساتھ ہی اُن کو فنڈز فراہم کئے گئے جس کے نتیجے میں انہوں نے عدالت کے مطابق مصدقہ ثبوت حاصل کئے۔ عدالت نے نواز شریف کو فوری عہدہ چھوڑنے کا حکم بھی دیا۔ سو انہوں نے چھوڑ دیا، یوں کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ عدالت نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو بھی کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے جے آئی ٹی اور ایف آئی اے کے مواد کومدنظر رکھا جائے۔ وزیراعظم کے خلاف ہل میٹل، عزیزیہ مل کا ریفرنس اور لندن فلیٹس پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ نااہل قرار دیئے گئے افراد کی نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے، الیکشن کمیشن نے نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف 2013ء الیکشن میں درست اثاثے نہیں پیش کئے۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ جعلی دستاویزات پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔بنچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد پانچ روز تک سماعت ہوتی رہی اور فریقین کو اپنے دفاع کا موقع دیا گیا، مگر عدالت کی رو سے میاں محمد نواز شریف، اُن کے فرزند، اُن کی بیٹی اور داماد مناسب ثبوت فراہم نہ کرسکے تاہم جے آئی ٹی کے پاس معتبر ثبوت موجود تھے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کرلیا تھا اور 28 جولائی 2017ء کو سنا دیا۔ واضح رہے کہ 3 اپریل 2016ءکو پاناما پیپرز کا معاملہ صحافیو ں کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے ) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام شامل تھے۔ تفتیش کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کئی آف شورکمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا، اس حوالے سے وزیر اعظم نوازشریف نے دوبار قوم سے خطاب کیا اور ایک بار پارلیمنٹ میں بھی خطاب کیا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں تحقیقات کیلئے ٹی او آرز بنانے کیلئے کوشش کرتی رہیں لیکن حکومت کا اصرار تھا کہ احتساب کا عمل اُن سب لوگوں سے شروع ہونا چاہئے جن کے نام پاناما لیکس میں ہیں جبکہ اپوزیشن کا اصرار تھا کہ صرف وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کا پہلے احتساب ہونا چاہئے۔ بعدازاں اس حوالے سے عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جما لی کی سربراہی میں پہلی مر تبہ یکم نومبر 2016 کو پاناما کیس کی سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیا گیا، کچھ روز سماعت کے بعد سابق چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کی وجہ سے یہ بنچ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کر نے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پانچ رکنی بنچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججو ں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرارنہ دیتے ہوئے نا اہل قرار دیا۔ تین رکنی بنچ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ اس میں نیب، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے شامل تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کو طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کئے تھے۔جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار جبکہ حسن نواز کو 3 بارطلب کیا تھا۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے 62روز میں تحقیقات مکمل کر کے 10جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کو پیش کی تھی۔ جے آئی ٹی کی 10جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائی، جس کی روشنی میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف یہ حکم دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ کیا یہاں رک جائے گا یا یا جاری رہے گا۔ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو بین الاقوامی میڈیا نے بھی نمایاں طور پر دکھایا اور شائع کیا۔ شریف خاندان نے اِس فیصلے کو تحفظات کے ساتھ قبول کرلیا تاہم مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانونی حق استعمال کرنے کا عندیہ دیا جبکہ سپریم کورٹ نے صدر پاکستان کو ہدایت جاری کی کہ وہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں اور قائد ایوان کا انتخاب کریں۔ مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کو اپنا نیا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان ایک اہم ملک ہے اور اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ زوروشور کے ساتھ جاری ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں تصادم کی پالیسی سے بچا جائے اور جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ملک قائم رکھنے کے لئے انصاف انتہائی ضروری ہے۔ اداروں پر بھی الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ انہوں نے سازش کی کیونکہ یہ معاملہ تو عالمی صحافیوں نے اٹھایا تھا۔ دُنیا کے کئی ملکوں کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دے دیا مگر پاکستان کے وزیراعظم نے اپنا کیس لڑاسو فیصلہ عدالت کے ذریعے ہوا۔

تازہ ترین