• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور آخر کار پارلیمنٹ کی اصلاحاتی کمیٹی نے الیکشن مسودہ بل پر دستخط کر دیئے ۔کہا جارہا ہے کہ آئندہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں اس بل کی منظوری لی جائے گی۔ ایکٹ بننے کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہوگا تو اُمید پیدا ہو جائے گی کہ شاید اب شفاف الیکشن ہو سکیں کیونکہ چالیس سال بعد یہ انتخابی اصلاحات سامنے آرہی رہیں جن میں مختلف 9انتخابی قوانین کو ضم کیا گیا ہے اور ایسے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو مکمل مالیاتی اور انتظامی خود مختاری کے ساتھ ساتھ انتخابات کے دوران بے ضابطگی کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے کا اختیار بھی حاصل ہوگا ۔ تانگہ پارٹیوں کی چھٹی ہو جائیگی کیونکہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن فیس دو لاکھ مقرر کر دی گئی ہے اور کم ازکم ارکان کی تعداد دو ہزار ہونی چاہئے جبکہ ان کے شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کرنا لازمی ہے، حلقے میں خواتین کے ووٹ کُل ڈالے گئے ووٹوں کے 10فیصد سے کم نکلے تو یہ نتائج کالعدم قرار دیئے جا سکیں گے۔ دس فیصد ووٹ حاصل نہ کرنیوالی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ ہو جائے گی جبکہ سیاسی جماعتوں کے لئے خواتین کو 5فیصد ٹکٹیں دینے کی پابند ی ہوگی۔ اس وقت ملک کے اندر 344سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں ، گزشتہ الیکشن میں 183سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا تھا۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے گوشوارے جمع نہ کرانے اور بعض دیگر اعتراضات پر 137جماعتوں کو غیر فعال قرار دیا ہے ۔ اس وقت ملک میں صرف46سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے رولز کے مطابق سرگرم ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے مسودہ بل پر صرف 9سیاسی جماعتوں نے دستخط کئے ۔ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے اپنا اختلافی نوٹ شامل کرایا جس میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ پی ٹی آئی اور پی پی نے اس مسودہ بل پر دستخط کرنے کی بجائے بائیکاٹ کیا ۔ پی ٹی آئی نے حکومت پر سمندر پار پاکستانیوں کو حق رائے دیہی نہ دینے پر جبکہ پی پی ان کیمرہ اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 63,62کو مکمل ختم کرنے کا مطالبہ کر چکی تھی ۔
یہ صورتحال قارئین کے سامنے ہے ، ان سطور میں متعدد بار تحریر کیا گیا ہے کہ حکمراں اور سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کیلئے کبھی بھی سنجیدہ نہ تھیں اور نہ ہی اب ہیں اس لئے آئندہ عام انتخابات تک یہ سیاسی جماعتیں بل پاس نہیں ہونے دیں گی اور نہ ہی نئے انتخابی قوانین اور مردم شماری کے تحت 2018ء کے عام انتخابات کا انعقاد ممکن نظر آتا ہے اس لئے تھوڑا سا پس منظر جان لیتے ہیں کہ جنوری2013ء کو عام انتخابات سے چند مہینے پہلے الیکشن کمیشن نے انتخابی اصلاحات کیلئے تجاویز پر مشتمل مسودے کی منظوری دی تھی ، اُس وقت اخبارات میں بڑا شور اٹھا اور سیاسی جماعتوں نے بڑھکیں ماریں کہ یہ اصلاحات ایکٹ کی صورت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا کے الیکشن ان کے تحت کرائے جائیں گے ۔ لیکن یہ خواب ادھورا رہا 2013ء کے عام انتخابات کو اب سوا چار برس ہو چکے ہیں مگر ابھی تک انتخابی قوانین کی منظوری نہیں ہو سکی ، جب ن لیگ کی حکومت آئی تو اُس نے 25جولائی 2014ء کو کمیٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا کہ یہ کمیٹی اپنی سفارشات تین مہینے میں قومی اسمبلی میں پیش کریگی لیکن تین سال میں 119اجلاسوں کے باوجود ابھی تک صرف مسودہ پر پارلیمانی کمیٹی نے دستخط کئے ہیں ۔ نئے مجوزہ قانون کے مطابق انتخابات کے انعقاد سے چھ مہینے پہلے تک الیکشن کمیشن کے لئے تمام تیاریاں مکمل کرنا لازمی ہیں۔ اس وقت تک الیکشن کمیشن کو فنڈز ہی جاری نہیںکئے گئے حالانکہ الیکشن کمیشن 7لاکھ ماسٹر ٹرینرز کے نام تمام ضلعی الیکشن کمشنر ز سے منگوا چکا ہے اور شیڈول کے مطابق اس جولائی میں اُن کی ٹریننگ لازمی تھی الیکشن کمیشن مخمصے کا شکار ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ نئے انتخابی قوانین کی منظوری ہوتی ہے یا نہیں لیکن الیکشن کمیشن نے انوکھا اقدام کیا ہے کہ نہ بجٹ ہے اور نہ ہی تخمینہ مگر ملک بھی میں 80ہزار پولنگ اسٹیشنوں کی جیو ٹیکنگ کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے ۔ گو چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت نئے انتخابی قوانین کو نمٹانے میں سنجیدہ نہیں۔
چھٹی مردم شماری کے نتائج اگر ابھی جاری نہیں کئے جاتے تو پھر 2018ء کے عام انتخابات پرانے قوانین اور پرانی حلقہ بندیوں پر ہی کرائے جائیں گے ۔ اس لئے بڑی ذمہ داری سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات بھی دھاندلی زدہ اور غیر شفاف ہونگے اور بعض سیاسی جماعتوں سمیت حکمراںکبھی بھی نئے انتخابی قوانین فوری منظور کرنے کے حق میں نہیںکیونکہ یہ ا سٹیٹس کو نہیں توڑنا چاہتے اب تو وزیراعظم کی نااہلی کے بعد بالکل ہی ناممکن ہے اور یہ صرف اور صرف نیا انتخابی ’’لالی پاپ‘‘ ہے ۔ کئی برسوں سے یہ بھی نعرہ لگایا جاتا رہا کہ آئندہ عام انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے تحت ہونگے مگر اس حوالے سے قطعی طور پر کام نہیںکیا گیا اور نہ ہی اس تجویز کو نئے انتخابی قوانین میں شامل کیا گیا ہے، جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ جب تک اس کے استعمال کی صحیح تصدیق نہیں ہوجاتی اس سسٹم کو نہیں اپنایا جا سکتا حالانکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں 1999ء سے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات ہورہے ہیں اور پاکستان میں 14جون 2017ء کو صرف ایک سو بائیو میٹرک تصدیق والی مشینیں خریدی گئیں جبکہ عام انتخابات کیلئے 3لاکھ 60ہزار ایسی مشینوں کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم چیز دیکھنے والی ہے کہ نئے انتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتوں کیلئے 5فیصد خواتین کو انتخابی ٹکٹ دینا لازمی ہے اور جس حلقے میں دس فیصد سے کم خواتین کے ووٹ نکلیں گے وہ نتائج کالعدم قرارد یئے جا سکتے ہیں مگر حیران کن انکشاف ہے کہ اس وقت ایک کروڑ 25لاکھ خواتین ایسی ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ ہی موجود نہیں اور وہ ووٹر فہرستوں میں شمولیت سے محروم ہیں۔ ملک کی آبادی میں خواتین کا تناسب50 فیصد سے زیادہ ہے مگر ووٹر فہرستوں میں یہ 12فیصد کم ہیں۔ بہرحال جب تک حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی نیت درست نہیں ہوتی اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے انتخابی عمل کو شفاف نہیں بنایا جاتاکبھی بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات نہیں ہوسکتے ۔ خدارا قوم کو لالی پاپ دینا بند کر دیں!

تازہ ترین