• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف جب سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تو 6 سال قیام کے بعد 2006ء میں سعودی حکومت نے نواز شریف کو اس شرط پر علاج کی غرض سے برطانیہ جانے کی اجازت دی کہ وہ علاج معالجے کے بعد پاکستان واپس نہیں جائیں گے۔ بعد ازاں سعودی حکومت کی یقین دہانی پر آمر پرویز مشرف کی حکومت نے شریف فیملی کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کردی مگر دوسری طرف جنرل پرویز مشرف نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو پیغام بھیجا کہ ’’برطانوی حکومت شریف فیملی کو ویزا جاری نہ کرے۔‘‘ اس طرح جب سعودی عرب میں مقیم شریف فیملی نے برطانوی ویزے کیلئے درخواست داخل کی تو اُنہیں مشرف کے دبائو پر ویزا دینے سے انکار کردیا گیا۔ یہ بات انتہائی افسوسناک تھی کہ برطانیہ جیسا ملک جو جمہوریت کا علمبردار کہلواتا ہے، نے ایک ڈکٹیٹر کے کہنے پر ایک سابق پاکستانی وزیراعظم کو ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے ایک پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ نے برطانوی وزیر داخلہ تھریسامے سے ملاقات کی اور اُن سے کہا کہ ’’یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ جمہوریت کے علمبردار ملک برطانیہ نے ایک ڈکٹیٹر کے دبائو میں آکر پاکستان کے سابق وزیراعظم کو ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا، اگر برطانیہ نے ویزا جاری نہ کیا تو وہ برطانوی حکومت کے اس تضحیک آمیز رویئے پر پریس کانفرنس کرکے برطانیہ کی جمہوریت کا اصل چہرہ بے نقاب کریں گے۔‘‘ بعد ازاں برطانوی وزیر داخلہ نے وزیراعظم ٹونی بلیئر سے مشاورت کرکے شریف فیملی کو ویزہ جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کردی لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی کہ ’’شریف فیملی کو برطانوی قانون کے مطابق ویزے کی 6 ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد کچھ دنوں کیلئے برطانیہ چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ اس طرح شریف فیملی نے دبئی میں اقامہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہر 6 ماہ بعد کچھ دنوں کیلئے دبئی میں قیام کیا جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نواز شریف جتنے بھی عرصے برطانیہ میں مقیم رہے، برطانوی قانون پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ہر 6 ماہ بعد دبئی میں قیام کیا جس کا ذکر وہ گزشتہ دنوں اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں بھی کرچکے ہیں۔
میں دبئی میں کافی عرصہ گزارچکا ہوں اور دبئی کے اقامہ قانون سے اچھی طرح واقف ہوں۔ دبئی امیگریشن قانون کے مطابق دبئی میں اقامہ کیلئے ایک کنٹریکٹ پر سائن کرنا ہوتا ہے جس پر مذکورہ شخص کا عہدہ اور تنخواہ درج ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ تنخواہ آپ ہی وصول کریں۔ اسی طرح آپ نے اگر 6 ماہ کے دوران اقامہ استعمال نہیں کیا اور دبئی سے باہر رہے تو آپ کا اقامہ خود بخود منسوخ ہوجائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف نے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت دبئی کے اقامہ کی کاپی بھی منسلک کی تھی تاہم وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے یو اے ای کے جتنے بھی دورے کئے، دبئی میں قیام نہیں کیا جس کے باعث اُن کا اقامہ منسوخ ہوگیا۔
اقامہ کی بنیاد پر عوام کے منتخب وزیراعظم کی نااہلی سے پنڈورا بکس کھل گیا ہے اور ایک نئی مثال قائم ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 100 سے زائد اراکین جن میں وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور پارٹی قائدین بھی شامل ہیں، یو اے ای اور دیگر ممالک کے اقامہ ہولڈر ہیں جسے انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ بھی اِسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ وزیراعظم کو اس بنا پر نااہل کرنا کہ ’’نواز شریف تنخواہ لینے کے مجاز تھے اور عدم وصولی کے باوجود بھی قابل وصول تنخواہ اثاثہ تھی‘‘ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ کئی کمپنیوں میں چیئرمین کا عہدہ رسمی یا اعزازی ہوتا ہے جس کی چیئرمین کوئی تنخواہ وصول نہیں کرتا جبکہ پاکستان کے ٹیکس قوانین ITO-2001 شق 12 کے تحت جو تنخواہ آپ وصول کرتے ہیں، وہی آپ کا اثاثہ ہے اور قابل وصول تنخواہ آپ کا اثاثہ نہیں کہلاتی، اس لحاظ سے نواز شریف کیلئے یہ ضروری نہیں تھا کہ کاغذات نامزدگی میں وہ تنخواہ جو انہوں نے وصول ہی نہ کی ہو، کو بطور اثاثہ ظاہر کرتے۔
میرا خیال ہے کہ نواز شریف کے وکلاء عدالت میں اُن کا صحیح طور پر دفاع نہ کرسکے اور عدالت کے یہ پوچھنے پر کہ ’’کیا وزیراعظم دبئی میں تنخواہ وصول کرنے کے مجاز تھے؟‘‘ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دینے سے نواز شریف بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار پائے حالانکہ ٹیکنیکل طور پر اگر کوئی شخص دوران ملازمت غیر حاضر ہو تو وہ تنخواہ لینے کا مجاز نہیں۔ نواز شریف اُسی صورت میں اپنی کمپنی سے تنخواہ لینے کے حقدار تھے جب وہ دبئی میں قیام کرتے۔ دوران ملازمت اگر انہوں نے دبئی میں قیام نہیں کیا تو کمپنی اِسے ’’طویل رخصت‘‘ تصور کرے گی اور ایسی صورت میں وہ تنخواہ کے حقدار نہیں تھے اور نہ ہی تنخواہ اُن کا اثاثہ تھی۔ اگریہ موقف تسلیم بھی کرلیا جائے کہ قابل وصول رقم بھی آپ کا اثاثہ ہے تو اس طرح سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام شادی شدہ خواتین اراکین بھی نااہل قرار پائیں گی کیونکہ اُن کا حق مہر جو شوہر کی جانب سے واجب الادا ہے، کو ’’اثاثہ ‘‘شمار کیا جائے گا جسے انہوں نے اپنے انتخابی گوشوارے میں ظاہر نہیں کیا۔
یہ امر قابل ستائش ہے کہ نواز شریف اور اُن کی پارٹی نے ایک کمزور اور ٹیکنیکل فیصلے کو فراخ دلی سے تسلیم کرتے ہوئے ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کا ردعمل ظاہر نہیں کیا مگر وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’نواز شریف کی بحیثیت وزیراعظم تذلیل کی گئی اور اُنہیں کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ اقامہ اور وصول نہ کی گئی تنخواہ کے نتیجے میں نااہل کیا گیا حالانکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان آف شور کمپنیوں اور لندن اپارٹمنٹس کے حوالے سے کیس کی سماعت کررہے تھے۔‘‘ ایک منتخب وزیراعظم کو کمزور فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار دینے سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ نواز شریف کی جانب سے دائر کردہ نظرثانی پٹیشن میں اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا جائزہ لے جس سے اسکے وقار میں اضافہ ہوگا بصورت دیگر (ن) لیگ کا یہ قول سچ ثابت ہوجائے گا کہ ’’عدالتی فیصلے نے مستقبل میں کٹھ پتلی وزیراعظم کی راہ ہموار کردی ہے اور اگر منتخب وزرائے اعظم کو اِسی طرح بہانوں سے نکالا جاتا رہا تو پاکستان حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔‘‘
صبح کے تخت نشیں، شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے

تازہ ترین