• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اکثر یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاستدان سب سے آسان ٹارگٹ ہیں اور اُن کا ہی احتساب کیا جاتا ہے ،باقی افراد اور اداروںکا محاسبہ نہیں کیا جاتا اور یہ شکوہ بہت حد تک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ37سال کے آمرانہ دور میں بھی احتساب کے نام پر صرف سیاستدانوں کے گرد ہی گھیرا تنگ کیا گیا۔ اسی وجہ سے عوامی سطح پر ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کے احتساب کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ ماضی میں سول و آمرانہ حکومتوں کی جانب سے احتساب کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے وقتی طور پر چند اقدام بھی کئے گئے مگر اس خواب کی مفصل تعبیر کبھی حاصل نہ ہو سکی۔اب سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی وساطت سے پنجاب حکومت نے صوبائی سیکرٹریز اور تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کو مُراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گریڈ 16اور اس سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کی 30جون 2017ء تک کی آمدن اور اثاثہ جات کے متعلق تفصیلی رپورٹ بھجوائی جائے۔ اس خط میں یہ بھی بتانے کا پابند کیا گیا ہے کہ کس افسر کی آمدن اور اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ ماضی میں بھی وفاقی و صوبائی حکومتوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے سرکاری افسران کو اثاثے ظاہر کرنے کی پابند کیا جاتا رہا ہے اور نہ کرنے پر پرفارمنس الائونس روکنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ چند ماہ قبل وفاقی حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ سرکاری افسران اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کریں ،تفصیلات جمع نہ کروانے والے افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی مگر اس کے بعد متعلقہ افسران کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی،یہ کسی کو معلوم نہیں۔اب صوبائی حکومت کا اقدام خوش آئند ہے تاہم یہ عمل وقتی یا محدود سطح تک نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کا دائرہ تمام منتخب و غیر منتخب اداروں اور شخصیات تک وسیع ہونا چاہئے تاکہ’’ سب کا احتساب‘‘ کے خواب کو تعبیر دی جا سکے ۔شفاف احتساب کیلئے پارلیمان کو بھی نئی قانون سازی کے ذریعے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔

تازہ ترین