• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں حکمراں طبقے کی اکثریت1985 کی مجلس شوریٰ یا اس کی باقیات پر مشتمل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی نے ایک نئے منصفانہ اور روشن خیال پاکستان کا تصور عوام کو دیا تھا۔ قطع نظر بھٹو شہید کی ذاتی شخصیت کے ملک کے مزدوروں،کسانوںاورروشن خیال درمیانے طبقوں کو نئے دور کی ممکنہ آمد کا دلی یقین تھا۔1970 کے انتخابات میں پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی نے زیادہ تر درمیانے طبقے کے سرگرم افراد کو اسمبلیوں تک پہنچایاتھالیکن 1977تک آتے آتے یہ صورت حال تبدیل ہو چکی تھی اور پرانے روایتی حکمراں طبقے پیپلز پارٹی پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تاجر اور صنعت کار طبقات نے مذہبی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ سے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی تو پیپلز پارٹی موثر انداز میں اپنا دفاع نہ کر سکی۔
ضیاء الحق کے مارشل لا اور اس کی قائم کردہ مجلس شوریٰ میں ستر کی دہائی کے دائیں بازو کے سرگرم کارکن سامنے آئے۔ ان کارکنوں میں بہت بڑی تعداد مذہبی جماعتوں کی طلباسیاست کی پیداوار تھی۔ اگرچہ رفتہ رفتہ تاجر اور صنعتی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد اسی کی دہائی کی قدامت پرست سیاست کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیاب ہو گئے لیکن نظریاتی رہنمائی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کے اندر مذہبی عناصر کے ہاتھ میں ہی رہی۔ میاں نواز شریف شہری تاجران اور صنعتی طبقات کے نمائندہ کے طور پر سامنے آئے۔ میاں نواز شریف کے عروج سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سیاست کی بالائی سطح پر ذات برادری کا کردار اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر بیان کیا جاتا ہے۔میاں نواز شریف کا تعلق پنجاب کی کسی بھی بڑی برادری سے نہیں تھا۔ غرضیکہ میاں نواز شریف پنجاب کے نئے ابھرتے ہوئے تاجر اور صنعتکار طبقے کے مذہب پرست نمائندہ تھے اور شاید ابھی تک ہیں۔
مجلس شوریٰ کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے جس کی وجہ سے مقامی اثر و رسوخ اور ذات برادری جیسے روایتی تصورات سیاست میں کسی حد تک (بالائی سطح پر نہیں) لوٹ کر آگئے۔ اس سے پہلے 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ذات برادری کی حد بندیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے مجلس شوریٰ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا لہٰذا سیاست دانوں کی ایک پوری نئی کھیپ تیار ہو کر سامنے آئی۔ نئے ابھرنے والے حکمراںسیاسی گروہ عملاً مذہبی نظریے کے ساتھ ساتھ سرمایہ داری نظام کے گرویدہ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان اور امریکہ میں بھی قدامت پرست مذہبی نظریہ اور بے لگام سرمایہ داری کے تصورات یکجا ہونا شروع ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف بیک وقت بڑے صنعتکار اور امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔ یہی ماڈل ہر جگہ مقبول ہو رہا تھا۔
سرمایہ داری اور قدامت پرست مذہبی نظریے کے ملاپ کو بدلتی ہوئی معاشی صورت حال نے بھی آگے بڑھایا۔ اسی کی دہائی میں ہزاروں سالوں سے رائج روایتی زرعی نظام کا خاتمہ شروع ہو گیا تھا۔ ایک طرف تو مشینی کا شت کاری پرانے نظام کو یکسر تبدیل کر رہی تھی تو دوسری طرف معیشت کے دوسرے شعبے (سروسز وغیرہ) دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے تھے۔ نئی دولت پھیلتے ہوئے شہروں میں پیدا ہو رہی تھی جس سے تاجر اور صنعتکار طبقات کی توسیع ہو رہی تھی۔ چنانچہ اسی کی دہائی میں جاگیردارانہ اشرافیہ سکڑتی گئی اور نئے طبقات پیدا ہوئے اور پھیلتے گئے۔ اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ میاں نواز شریف اسی طبقے کے نمائندہ کے طور ابھرے تھے۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت میں نئے طبقات پید اہو گئے اور ان کی سیاسی نمائندگی بھی ایک نئے شہری طبقے کے ہاتھ میں آگئی لیکن ملک کے اداروں کے درمیان طاقت کا توازن تبدیل نہیں ہوا۔ ملک میں عسکری اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط رہی۔ میاں نواز شریف اور ان کے طبقے کے ارتقاکو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہےیعنی نئے ابھرتے طبقات کا اپنے اختیارات کی توسیع کی خواہش رکھنا۔ آسان لفظوں میں نئے ابھرتے ہوئے طبقات مکمل سویلین حکمرانی کے طلبگار تھے جوکہ روایتی اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں تھی اور شاید اب بھی نہیں ہے۔
پچھلے چالیس سالوں میں پیشہ ور (پروفیشنل) طبقات بھی بہت بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ ان طبقات میں وکلااور سروسز سیکٹر کے بہت سے لوگ شامل ہیں۔ یہ طبقات تحریک انصاف کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک صاف شفاف نظام رائج ہو۔ پچھلے کئی سالوں میں چلنے والی تحریک میں وکلا کی آزاد عدلیہ کے لئے جدو جہد نمایاں تھی۔ اب عدالت عالیہ نے میاں نواز شریف کو ناہل قرار دے کر ثابت کیا ہے کہ پروفیشنل طبقات تاجروں کی نمائندہ حکومت کو مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس تبدیلی سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والی سیاسی کھیپ اپنی افادیت کھو رہی ہے۔ اگرچہ اس تبدیلی کا بہتر طریقہ الیکشن کے ذریعے سامنے آتا لیکن پھر بھی موجودہ سیاسی تبدیلی مختلف طبقات کے تضاد کی عکاس ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو موجودہ سیاسی جنگ حکمراں طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان لڑی جا رہی ہے لیکن پھر بھی ان طبقات کے مختلف حصوں کے اپنے اپنے اوصاف ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) جیسی پارٹی جو اسی کی دہائی کی سیاسی معیشت کی پیداوار ہے، اپنے آپ کو قائم رکھ سکے گی یا رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی کی طرح ملک کے اکثر حصوں سے معدوم ہو جائے گی؟ ہمارے خیال میں مسلم لیگ (ن) جن طبقات کی نمائندگی کرتی ہے وہ خاصے وسیع اور ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں، اس لئے مسلم لیگ (ن) کافی عرصے تک کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے گی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے بیانیے کی جیت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اگلے الیکشن کے بعد حکومت بنانے میںکامیاب ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین