• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی پاکستانی کمیونٹی پانامہ کیس کے عدالتی فیصلے کے بارے میں اسی طرح سیاسی اور فکری تقسیم کی زد میں ہے۔ کچھ مناظر یوں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی مقامی اٹارنی مجاہد خان اور آصف چوہدری عدالتی فیصلہ کی حمایت اور پی ٹی آئی کے موقف کی وکالت کرتے ہوئے نیویارک کے مشہور بوٹا ڈھول والا کی تھاپ پر بھنگڑااور مٹھائیوں کی تقسیم کے انتظامات میں کھلے عام مصروف نظر آئے جبکہ مشرف حکومت کے حامی اور سابق جسٹس افتخار چوہدری کے مخالف اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر عارف چوہدری ایڈوکیٹ نیویارک میں اپنے دوست اور نواز شریف کے قدیمی مخالف سردار نصر اللہ سربراہ کونسل مسلم لیگ کی ہمراہی میں پی ٹی آئی کے اس جشن مسرت میں شرکت کے لئے بروکلین آئے تو اسی سڑک کے پار ریسٹورنٹ میں نواز شریف کے حامی راجہ رزاق نے ایک اجتماع کا انتظام کر رکھا تھا جہاں پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر برائے 2012ء یٰسین آزاد ایڈوکیٹ مقرر خصوصی تھے اور امریکہ میں تحریک آزادی عدلیہ اور سابق چیف جسٹس کے حامی وکلا رمضان رانا اور شاہد مہر ان کے ہمراہ موجود تھے۔
نواز شریف کی یہ بات واقعی درست ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو تاریخ ضرور جانچے گی۔ کیونکہ ماضی میں ہماری عدالتوں کے بہت سے کئے گئے حتمی فیصلوں کے بارے میں تاریخ نے اپنے فیصلے ثبت کئے ہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس، نظریہ ضرورت، مارشل لاء کی توثیق، بھٹو کا عدالتی قتل اور دیگر مقدمات کے فیصلوں کو بہترین انصاف کا نام دے کر لوگوں نے خوب جشن منائے، مٹھائیاں تقسیم کیں۔ حامیوں کو ترقیاں اور اختلاف رائے کرنے والوں کو سزائیں اور بے توقیری کا سامنا کرنا پڑا لیکن آنے والے وقت میں تاریخ نے انہی مقدمات اور فیصلوں کو بے انصافی اور عدالتی ترازو کی توہین نہ صرف قرار دیا بلکہ بعض فیصلہ کرنے والےتو اپنے اس عمل کو خود گناہ اور بے انصافی تسلیم کرکے عوام سے معافی بھی مانگتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔ پاکستان میں امریکہ کے سفیر نکولس پلاٹ جب سبکدوش ہوکر امریکی ادارے ایشیا سوسائٹی کے سربراہ بنے تو جسٹس نسیم حسن شاہ نیویارک آئے ہوئے تھے پاکستانی مشن برائے اقوام متحدہ کے دفتر سے نکولس پلاٹ سے ملنے ایشیاسوسائٹی کے دفتر جانے لگے تو یہ جان کر کہ میں بھی وہیں جارہا ہوں انہوں نے مجھے بھی سرکاری گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھالیا۔ جسٹس نسیم حسن نے مجھ سے نکولس پلاٹ کے بارے میں کچھ سوال جواب کئے تو میں نے بھی جواباً ایک سوال ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کے حوالے سے پوچھنے کی جرات کرلی وہ پہلے تلخ اور برہم ہوئے پھر اسی تلخی کے ساتھ جواب میں مبہم انداز میں دو جملے ایسے کہے کہ ان کی ’’باڈی لینگویج‘‘ اور چہرے کے تاثر کے تناظر میں مجھے بہت کچھ سمجھنے اور اپنا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوگئی۔ جسٹس نسیم حسن دنیا سے جانے سے قبل خود بھی اپنے اس ’’گناہ‘‘ کا اعتراف کر گئے ہیں۔ ہمارے پیارے پاکستان میں کچھ ایسے جج بھی گزرے ہیں جواب اس دنیا میں نہیں مگر ان کے جرات مندانہ اور عادلانہ کام کوہم دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خاں کے استبدادی دور میں جسٹس رستم کیانی، جسٹس شبیر احمد ،جسٹس بی زیڈ کیکائوس وغیرہ اسی طرح بعد کے دور میں جسٹس اے آر کارنیلئس، جسٹس حمود الرحمٰن اور دیگر بطور مثال ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف عدالتی فیصلے کی رو سے سبکدوش ہوکر اب مری جاچکے ہیں۔ اور ان کے خلاف مہم کے سیاسی فاتح عمران خاں اپنے سیاسی ساتھیوں اور حامیوں کو اسلام آباد میں جمع کرکے ’’یوم تشکر‘‘ یعنی اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عوام کے لئے انتہائی دلکش کئی نکات پر مشتمل وعدوں یعنی منشور کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ سماجی انصاف کے اس دلکش منشور کی حمایت غریب عوام اور متوسط طبقے کا ہر فرد کرے گا لیکن عمران خان جن رئیس امیروں اور پیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پارٹیاں تو ضرور بدلی ہیں مگر اپنے انتخابی حلقوں کے غریب عوام کی اتنے سالوں میں حالت نہیں بدلی۔ بہرحال عمران خاں کو اگر واقعی خلوص کے ساتھ اپنے اس منشور پر عمل کرنا ہے تو ابھی سے چند اقدامات کی لازمی ضرورت ہے۔ (1) جن امور پر عمران خان کو بلیک میل یا دبائو کا شکار بنایا جاتا ہے۔ وہ ان انسانی کمزوریوں کو عوام کے سامنے اسی طرح اعتراف کرکے حقیقت بیان کریں اور آگے بڑھ جائیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی شراب نوشی کی کمزوری کا اعتراف کیا تھا۔ ان تمام ٹی وی پروگراموں کا ریکارڈ موجود ہے جس میں ان کے اپنے تازہ کارکن بابر اعوان نے ہی پی پی پی سے اپنی وابستگی کے دور میں عمران خان کے سامنے بیٹھ کر ان کی بیٹی ٹیریان اور اس کی ماں سیتا وہائٹ سے تعلقات کے چند حقائق سامنے رکھ کر پریشان کیا تھا۔ آج وہ پی پی پی چھوڑ کر آپ کے وفادار کارکن بنے ہوئے ہیں۔ 15؍جون 1992ء کو پیدا ہونے والی ٹیریان جیڈ نامی بچی اب 25سال کی جوان خاتون ہے۔ ریاست کیلیفورنیا میں مقدمہ نمبر BF-009322 مدعی خاتون اینالوئسا وہائٹ (سیتا وہائٹ) بنام عمران خان کا عدالتی فیصلہ 13؍اگست 1997ء بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں عمران خان کو کمسن بچی ٹیریان کا فطری باپ قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1959ء میں پیدا ہونے والی سیتا وہائٹ جب کینسر کا شکار ہوکر 15؍مئی 2004ء کو موت کی آغوش میں جانے سے قبل عمران خان کو اپنی بیٹی ٹیریان جیڈ کو اپنی حوالگی میں لینے کے لئے پیغامات بھیج چکی تھی اور پھر آپ نے بھی مسلسل کئی سال کے انکار کے بعد بالآخر امریکہ آکر 13سالہ ٹیریان جیڈ کو اپنی حوالگی میں لینے کی کارروائی خاموشی سے مکمل کی اور اسے لے جاکر برطانیہ میں گریٹ خاتون اپنی مطلقہ بیوی جمائما خان کی نگرانی میں چھوڑ دیا اور خود کو صرف اپنے دو بیٹوں کا باپ ہی قرار دیتے رہے۔ اس تمام تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ماضی میں بھی وہ ٹیریان جیڈ کے باپ ہونے سے انکار یا خاموشی کے باعث ماضی کی حکومتوں سے بلیک میل ہوکر بہت سے ’’کمپرومائز‘‘ کرتے آئے ہیں۔ پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر قانون ڈاکٹر شیر افگن نے امریکہ سے یہ تمام عدالتی ریکارڈ حاصل کرکے ریاست کیلیفورنیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ اور پھر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے اس کی تصدیق کروانے کے بعد پاکستان کے سفارت خانہ واشنگٹن سے بھی تصدیق کروا کر ان دستاویزات کو پاکستان اور امریکہ میں حتمی قانونی اور جائز شکل دیتےہوئے عمران خان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو حکمراں پرویز مشرف نے مداخلت کرکے معاملہ ٹھپ اور عمران خان کو مشرف حکومت کی مخالفت کرنے سے چپ کرادیا۔ اب عمران خاں قومی سیاست میں ابھرے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنے دو بیٹوں کی طرح ٹیریان جیڈ خان کو بھی اپنی فطری بیٹی قرار دے کر نہ صرف اس دبائو سے نکل آئیں اور بیٹی کو انکار کے ’’ٹروما‘‘ سے آزاد کریں بلکہ خواتین کی آزادی اور حقوق کے حامی ہونے کا سیاسی کریڈٹ بھی حاصل کریں۔ اگر کوئی شبہ ہوتو اپنا اور ٹیرین کے خون کا ڈی این اے شفاف اور دیانت دارانہ ٹرانسپرنسی کے تحت ٹیسٹ کروالیں۔ مسئلہ حل، شفافیت، جھوٹ اور حقوق نسواں اور احترام نسواں کے بارے میں عمران خان کا امیج بہتر اور کسی سیاسی بلیک میل سے بالکل محفوظ ہوجائے گا۔
نواز شریف کے خلاف اپنی مہم میں کامیابی کے بعد اب ملک سیاسی طور پر تقسیم اور اشتعال کا شکار ہے اور ملک کی سرحدوں پر کشیدگی اور ملک میں دہشت گردی اور بدامنی کا ماحول ہے لہٰذا باوقار اور قابل احترام مدبر سیاستدان کا روپ دھارنے کے لئے عمران خان اپنے حامی کارکنوں کو سرحدوں پر متعین فوج کی مدد اور سرحد پار دشمن کو قوم کے متحد ہونے کا موثر پیغام بھیجنے کے لئے سرحدوں پر بطور رضاکار بھیجیں اپنی عمران کیبنٹ کے اراکین رہنمائوں کو ایسی ٹیموں کے ساتھ سرحدی صورت حال کے بارے میں سیکھنے کے لئے روانہ کریں جبکہ خواتین اندرون ملک بدامنی کی صورت حال کے بارے میں پولیس رینجرز کے ساتھ رابطہ کرکے دہشت گردی کے خلاف شہریوں کے رابطے اور مہم کو چلاکر خدمت کریں ان دو اقدامات سے عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ اور امیج کو مزید مقبولیت اور شہرت ملے گی۔ رہی دفعہ 62 اور 63کے اطلاق اور غیرملکی فنڈنگ کے قانون کے اطلاق کی بات تو وہ ضمیر کے اطمینان، بیٹی کی ولدیت اور محبت، تاریخ میں مقام اور قوم کو بہتر روایات دینے کے مقابلے میں اقتدار کی خواہش کی کوئی وقعت نہیں۔ قوم کو سکون اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ اسلام یا ذاتی زندگی کا معاملہ نہیں بلکہ آج کی جمہوری سیاست میں سچ، اعتماد، حقائق اور دفعہ 62اور 63کےنفاذ کا معاملہ ہے اور امریکی سیاست میں بھی بیٹی کو ولدیت اور حقوق دینے سے انکار قانونی و اخلاقی جرم ہے۔

تازہ ترین