• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی کوریا ایشیا کے وسط میں واقع ملک ہے جس کے ایک جانب چین اور دوسری جانب جنوبی کوریا واقع ہے جبکہ سمندری حدود جاپان سے بھی ملتی ہے، شمالی کوریا کی آبادی ڈھائی کروڑ افراد پر مشتمل ہے، اس کا رقبہ ایک لاکھ بیس ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے۔ شمالی کوریا اپنی انتہاپسندانہ سوچ اور جارحانہ فوجی پالیسیوں کے سبب کئی ممالک کی جانب سے سخت پابندیاں عائد ہونے سے معاشی طور پر تاحال وہ ترقی نہیں کرسکا جو اس کے پڑوسی ممالک چین اور جنوبی کوریا نے کر لی ہے۔ شمالی کوریا کی فی کس آمدنی تیسری دنیا کے کئی ممالک سے بھی کم ایک ہزار ڈالر فی کس سالانہ ہے اور ایک جماعتی حکومت طویل عرصے سے قائم ہے جسے آمرانہ جمہوریت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، شمالی کوریا کے عوام اپنی حکومت کی جانب سے شدید دبائو کا شکار ہیں جنھیں اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل نہیں ہے، حکومت نے ملک کے اندر سخت جاسوسی کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ہلکی سی بات پر شہریوں کی گرفتاری اور سخت ترین سزائیں عام سی بات ہے جس پر کوئی نہ آواز بلند کر سکتا ہے اور نہ ہی اپیل کر سکتا ہے، گزشتہ دنوں شمالی کوریا کی ایک چوبیس سالہ طالبہ کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس نے شمالی کوریا کی حکومت کے ملک میں جاری ظلم و ستم کا پردہ چاک کر دیا ہے، اس ویڈیو میں اس معصوم طالبہ نے شمالی کوریا کے شہریوں پر جاری ظلم وستم اور ان کے احساس محرومیوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ دنیا کو شام ولیبیا میں آمریت نظر آتی ہے، یمن میں عوام پر ظلم و ستم نظر آتا ہے لیکن شمالی کوریا کے عوام پر ہوتا ظلم و ستم نظر نہیں آتا نہ ہی دنیا کو شمالی کوریا کی جانب سے علاقے میں عدم استحکام پھیلانے اور علاقائی و عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ طالبہ نے جس طرح اپنی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کا بھانڈہ پھوڑا ہے اس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کو نوٹس لینا چاہئے۔ طالبہ کے مطابق شمالی کوریا میں کسی شہری کو اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل نہیں، اس جدید دور میں وہاںکے عوام کو انٹرنیٹ تک استعمال کرنے کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے،شمالی کوریا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بیرون ملک بغیر اجازت فون کال کرنے پر بھی سزائے موت دی جاسکتی ہے،شمالی کوریا کے عوام بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گزارر ہے ہیں اس طالبہ کے مطابق جب وہ نو برس کی تھی تو اس کی والدہ کو صرف اس لئے سر عوام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اس نے چھپ کر امریکی فلم دیکھ لی تھی،،شمالی کوریا میں سرکاری اخبار کے علاوہ کوئی اخبار شائع نہیں ہوتا، کتابیں بھی سرکاری سرپرستی میں شائع ہوتی ہیں، لوگوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے جس میں انھیں حکمراں جماعت سے وفاداری کا درس دیا جاتا ہے،جو شمالی کورین شہری حالات سے تنگ آکر جنوبی کوریا، چین یا منگولیا کی جانب ہجرت کرتے ہیں انھیں یا تو شمالی کوریا کی حکومت کے پاس واپس کردیا جاتا ہے یا پھر ان ممالک میں ان کا استحصال کیا جاتا ہے، سینکڑوں خواتین کی عزت پامال کی جاتی ہے اور وہ خواتین اپنی اولاد اور اہل خانہ کی سلامتی کی خاطر اپنی عزت گنوانے پر مجبور ہوجاتی ہیں،لیکن کوئی بھی پڑوسی ملک شمالی کوریا کے حکمرانوں کےاستحصال پر آواز بلند نہیں کرتا۔اس طالبہ نےپوری دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ دنیا اس خطرناک ملک کی خطرناک حکومت سے عوام کا استحصال بند کرانے کے لئے عملی اقدامات کرنے آگے آئے، انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کریں، سب سے بڑھ کر چین کی حکومت کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا کی حکومت پر دبائو ڈالے،کیونکہ چین کی سرپرستی سےہی شمالی کوریا آج دنیا کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔شمالی کوریا کے موجودہ حاکم کم جانگ ٹو کے اور بھی بہت سے جرائم عالمی سطح پر منظر عام پر آچکے ہیں جس میں چند ماہ قبل اپنے سوتیلے بھائی کو ملائیشیا میں قتل کرانے کا واقعہ بھی میڈیا کی زینت بنا ہے، کم جانگ ٹو کے سوتیلے بھائی کاجرم یہ تھا کہ اس نے اپنی بھائی کی حکومت پر تنقید کی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسے ملائیشیا کے ایئر پورٹ پر چند خواتین کے ذریعے ایک زہریلے اسپرے سے قتل کرایا گیا، جس کے بعد ملائیشیا کی پولیس نے شمالی کوریا کے حاضر سروس خفیہ ایجنٹ کو ان خواتین کے ساتھ گرفتار بھی کیا لیکن پھر ملائیشیا پر چین اور شمالی کوریا کا ایسا دبائو پڑ ا کہ چند دنوں بعد کم جانگ ٹو کے سوتیلے بھائی کی لاش،اور شمالی کوریا کی خفیہ ایجنسی کا حاضر سروس افسر دونوں ہی چین کے راستے شمالی کوریا بھجوانے پڑے،صرف یہی نہیں بلکہ کم جانگ ٹو کی جانب سے اپنے قریبی رشتہ دار اور فوج کے حاضر سروس جنرل کو بھی قتل کرانے کا واقعہ عالمی میڈیا کی زینت بن چکا ہے، یہ دونوں واقعات تو انتہائی اعلیٰ شخصیات کے قتل کے تھے جس کے باعث سامنے آگئے لیکن جو قتل عام شمالی کوریا کے عوام کا کیا جاتا ہے وہ منظر عام پر آنے سے رہ ہی جاتا ہے، پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں سرد مہری کا ایک سبب شمالی کوریا بھی ہے، ماضی میں جاپان اور عالمی میڈیا کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اسنے شمالی کوریا کو حساس میزائل ٹیکنالوجی برآمد کی جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی تھی لیکن ان الزامات کے بعد ہی جاپان اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے۔ اگر پاکستان کے شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تو پاکستان کوبھی چاہئےکہ وہ شمالی کوریا کی حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ اپنے عوام پر جاری ظلم و ستم بند کرے اور انھیں اپنی زندگی کے فیصلے کر نے کی آزادی فراہم کرے، میڈیا رپورٹس یہ بھی ہیں کہ شمالی کوریا کو چین کی حمایت حاصل ہے جس کی شہ پر شمالی کوریا نہ صرف اپنے عوام پر ظلم کرتا ہے بلکہ علاقائی ممالک کو بھی اپنی دھونس کا نشانہ بتاتا ہے، پہلی جنگ عظیم سے قبل 1910میںشمالی کوریا پر جاپانی افواج نے قبضہ کر رکھا تھا تاہم دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے جاپان پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد 1945میں شمالی کوریا کو بھی جاپان سے آزادی حاصل ہوئی تھی، تاہم شمالی کوریا اس قبضے کو بنیاد بنا کر آج کے پر امن جاپان کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، کئی خطرناک بیلسٹک میزائل کے تجربات کے ذریعے جاپان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ جو جاپان کا سب سے اہم دفاعی اتحادی ہے شمالی کوریا کے اس ابھرتے ہوئے خطرے سے جاپان کا کس طرح تحفظ کرتا ہے کیونکہ شمالی کوریا صرف جاپان کے لئے ہی نہیں بلکہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے لئے بھی خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔

تازہ ترین