• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
وطنِ عزیز میں شاید ہی کوئی باخبر شخص ہو جسے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہو البتہ جس بنیاد پر انہیں محرومِ اقتدار کیا گیا ہے اس پر سب کو اگر پریشانی نہیں ہے تو حیرانی ضرور ہے۔ کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے اتنے بلند بانگ دعوے کیے جا رہے تھے لیکن جب فیصلے کی گھڑی آئی تو پتہ چلا وہ سب محض دعوے تھے ثبوتوں کے بغیر لیکن چونکہ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ نواز شریف کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں سبق سکھاتے ہوئے بہرصورت نااہل کرنا ہے۔ جب من میں ٹھان لی جائے تو پھر حجتوں کے ڈھیر نہ بھی ملیں کوئی نہ کوئی حجت تو مل ہی جاتی ہے۔ پاناما کی نام نہاد کرپشن نہ سہی دبئی کی دس ہزار درہم تنخواہ نہ لینے کا جرم ہی سہی یعنی کروڑوں عوام کا مینڈیٹ اُن کے منہ پر مارا گیا ہے کہ تمہارے معتمد نمائندے نے جو دو لاکھ تنخواہ لینی تھی وہ کیوں نہیں لی اور لے کر اپنے اثاثوں میں کیوں نہیں ڈالی۔ احسن اقبال ٹھیک کہتے ہیں کہ اس سوچ کے زیرِ اثر اگر سرکاری ملازمین کے ریکارڈ چیک کیے جائیں تو بیشتر ٹی اے ڈی اے بلوں کی چیکنگ میں ہی نااہل ہو جائیں گے۔
محترمہ عاصمہ جہانگیر آزادانہ فیصلے صادر کرنے والے فاضلین سے استفسار کر رہی ہیں کہ ذرا ڈیفنس بجٹ کا تنقیدی جائزہ لے کر دکھا دو۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے۔ ماہر قانون عابد حسن منٹو کے یہ الفاظ بھی قابلِ غور ہیں میرے لیے یہ فیصلہ حیران کن ہے۔ اتنی بات پر انہیں نااہل قرار دے دیا جائے گا میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی۔
منٹو صاحب کے علاوہ سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’تنخواہ وصول نہ کرنے پر نااہلی حیران کن ہے‘‘۔ اور کن کن قانون دانوں کی حیرانی بیان کی جائے ایسے میں مخدوم جاوید ہاشمی کی صداقت ازخود واضح ہو جاتی ہے جنہوں نے دھرنے کے دنوں میں قوم پر سب کچھ واضح کر دیا تھا کہ وہ آج بھی اُس شخص کے ریفرنس سے یہ کہہ رہے ہیں جسے سعد رفیق محض ’’مہرہ‘‘ قرار دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اس مرتبہ عدالتوں کے ذریعے رخصت کیا جائے گا۔ جب سینئر سیاستدان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کیا اسے جوڈیشل مارشل لاء قرار دیا جائے گا تو جواب ملا کہ مارشل لاء لگائے بغیر انہیں فارغ کر دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پریس کانفرنس میں جوڈیشل مارشل لاء کے سوال پر بہت خوب جواب دیا ہے کہ ’’اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی‘‘۔ ماضی میں بہت سے عدالتی فیصلہ آئے جن پر اُس وقت کے کئی ناعاقبت اندیش لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں مگر آج پوری قوم متفقہ طور پر ان فیصلوں کو ظلم و جبر کے فیصلے قرار دیتی ہے حتیٰ کہ فیصلے دینے والوں نے بھی بعدازاں اوپر سے نازل ہونے والے دباؤ کا اعتراف کیا۔
شدید نوعیت کا یہ جبری فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف کے حمایتیوں اور مخالفین دونوں نے پریس کانفرنسز میں اپنے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن سچی بات ہے ہمیں سب سے زیادہ افسوس اور دکھ محترمہ کے بیٹے کی کانفرنس کا ہوا ہے جن کے دائیں اور بائیں خورشید شاہ صاحب جیسے منجھے ہوئے سیاستدان براجمان تھے مگر بلاول جس طرح اس جبری فیصلے کا خیرمقدم کر رہے تھے یہ منظر نامہ کسی مسلمہ جمہوری پارٹی کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھا۔ اس نوعیت کے افسوسناک عدالتی فیصلوں کے ہاتھوں پی پی سے زیادہ زخم خوردہ کون سی پارٹی ہو سکتی ہے جو اپنے وزیراعظم کی پھانسی سے لے کر محترمہ کے خلاف آنے والے فیصلوں تک اور پھر گیلانی کے ہٹائے جانے تک کا رونا روتے بجا طور پر نہیں تھکتے آج اپنی ساری اصولی سیاست پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے وہ مفاد پرستی کے ٹولے کا روپ کیوں دھارے بیٹھے تھے؟
اگر ان کی حریف پارٹی نے بے اصولیاں کی تھیں میمو گیٹ پر یا گیلانی صاحب کے ہٹائے جانے پر تو ان کی مذمت وطنِ عزیز کی تمام لبرل صحافت و دانش کرتی چلی آ رہی ہے۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد تمام جمہوری قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت پر ہونے والے کسی بھی وار کے خلاف ہم آہنگ و ہم آواز ہوں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ میثاقِ جمہوریت کے حوالے سے ایسی کوتاہیاں نہ کریں جن کے بھیانک نتائج آگے چل کر خود اُن کے سامنے آ جائیں۔ ایک بڑی سیاسی پارٹی کی حیثیت سے انہیں اپنی جمہوری ذمہ داری کا احساس بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ آئین میں موجود ڈکٹیٹر کی یاد گار دفعہ 62اور63 کے غیر جمہوری مضمرات کا انہیں بروقت ادراک ہونا چاہیے تھا اور پی پی کے ساتھ مل کر انہیں ایسی غیر جمہوری اور آئین کی روح کے خلاف تمام تجاوزات کے خاتمے کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔ امید ہے کہ اگلے انتخابات کا مرحلہ آنے سے پہلے موجودہ پارلیمنٹ ہی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ آج دونوں بڑی جمہوری پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پی پی کے سامنے اصل چیلنج ’’کنگز پارٹی‘‘ سے نبرد آزما ہونا ہے جس کے لیے ان دونوں کو ایک دوسرے کی لحاظ داری کرنا ہو گی۔ جب مشترکہ مقصد اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی سے چھٹکارا ہے تو پھر عوامی طاقت کو اس جبر کے سامنے پوری طاقت اور حکمت کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ مذہبی جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بچنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کنگز پارٹی کے جھوٹے و منفی پروپیگنڈے کا سامنے کرنا کیونکہ دونوں کے تار ایک مقام سے ہلائے جاتے ہیں۔
ہم بارہا ان کالموں میں یہ اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ مسئلہ کرپشن یا دھاندلی وغیرہ نہیں ہیں اگر ایسی بات ہوتی تو 62،63 بیورو کریسی کو بھی اسی طرح بے نقاب کرتی جس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے پاپولر جمہوری قیادتوں کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ یہاں 70 سالوں سے اصل مسئلہ اسٹیبلشمنٹ اور عوامی مینڈیٹ کے درمیان اتھارٹی کے تصادم کا ہے جس کو اس حوالے سے کسی نوع کا شک ہے وہ وطنِ عزیز کی سات دہائیوں پر محیط تاریخ کا جائزہ لے لے کہ جتنے طالع آزما جبر کی طاقت سے آئے ان کے سامنے پھول بچھاتے ہوئے فیصلے کرنے والوں نے کون کونسی قانونی موشگافیاں نہیں کی ہیں۔ قانون کو موم کی ناک بنایا جاتا رہا آئین میں ترمیم کا وہ اختیار جو سوائے پارلیمنٹ کے کسی بھی دوسرے ادارے کو حاصل نہیں تھا ڈکٹیٹروں کو دیا جاتا رہا۔ دوسری طرف تمام وزرائے اعظم کے ساتھ جو بدسلوکیاں ہوئیں ان کی داستان الگ کالم کی متقاضی ہے۔

تازہ ترین