• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی کمیٹی نے حال ہی میں 2018ء کے انتخابات کے لئے اصلاحات کی تجاویز کو آخری شکل دے دی ہے جس پر زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے دستخط بھی کر دیئے ہیں اور جلد ہی یہ اصلاحات قانونی شکل اختیار کر لیں گی۔ اس سلسلے میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے 2011میں ورکر پارٹی کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی تھی جس کا بنیادی مقصد ایسی انتخابی اصلاحات کا نفاذ مقصود تھا جس کی وجہ سے عام آدمی بھی سیاسی عمل کا حصہ بن سکے۔
سپریم کورٹ نے آئینی پٹیشن 87/2011کے ذریعے ایسا مفصل فیصلہ دیا جس سے انتخابی اصلاحات میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی تھیں۔ اس فیصلے کی روح اس کا آرٹیکل 81(g)ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن میں صرف انہی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہئے جس سے الیکشن کی مہم کو تقویت ملے اور ایسی مہم عام آدمی کی دسترس میں بھی ہو۔اسی وجہ سے پچھلے الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی کے اخراجات کی حد5لاکھ اور ممبر صوبائی اسمبلی کےلئے 2لاکھ کی حد مقرر کی گئی۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ امیدواران نے اس فیصلے کی پاسداری نہیں کی ہوگی اور ایسے راستے تلاش کر لئے ہوں گے جن کے ذریعے وہ مزید اخراجات چھپا سکیں۔یاد رہے کہ جمہوریت ایک ارتقا پذیر عمل ہے اور یوں اس قانون پر عمل کروانے کے لئے بھی کچھ وقت درکار ہوگا۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ اخراجات قومی اسمبلی کے امیدوار کے لئے 5لاکھ سے بڑھا کر40لاکھ اورصوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے 2لاکھ سے بڑھا کر 20لاکھ کر دئیے جائیں۔اس سفارش سے انتخابی اصلاحات کی اصل روح شدید متاثر ہوگی جس کا مقصد عام آدمی کو بھی سیاسی عمل میں شامل کرنا تھا ۔یہ سفارش سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات کے فیصلے کی بھی نفی ہو گی۔اس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے کاغذات جمع کرانے کی فیس جو کہ پہلے دو ہزار تھی اسے بڑھا کر30ہزار اور20ہزار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے سیاسی پارٹی کی کوئی رجسٹریشن فیس نہیں ہوتی تھی جو اب دو لاکھ کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔یہ سفارشات بھی آئین کے آرٹیکل 17اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔
آج پاکستان میں سیاست اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے ۔ریاست نے اپنے اختیارات خاص طور پر دیہی علاقوں میں سرداروں،جاگیرداروںاور خوانین کو منتقل کردئیے ہیں۔ان حالات میں عام آدمی بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور ریاست کے نہ ہونے کی وجہ سے ان جاگیر داروں اور سرداروں کے رحم و کرم پر اپنی زندگی گزار رہا ہے ۔ان حالات سے عام آدمی کو تقویت صرف اس وقت مل سکتی ہے جب وہ بھی معنی خیز انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔آج پاکستان کی سیاست کے بارے میں عمومی طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ ’’جو ووٹ ڈالتا ہے وہ ہارتا ہے‘‘ اور جس کو ووٹ ڈالا جا رہاہے دراصل وہ جیتتا ہے۔جمہوریت کے دوررس نتائج کے لئےضروری ہے کہ جو ووٹ ڈالے وہی جیتے۔جب تک عام آدمی جو خود کماتا ہواس عمل کا حصہ نہیں بنتا اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتے ۔ یاد رہے کہ آج پاکستان کی 99فیصد آبادی مزدوروں ،کسانوں ،ٹھیلے والوں،چھوٹے دکانداروں ،خواتین ،اقلیتوں،طالب علموں ،مظلوم طبقات اور محکوم قوموں پر مشتمل ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں ایک فیصد اشرافیہ سرداروں، جاگیرداروں،خوانین،سرمایہ داروں اور دوسرے استحصالی طبقات پر مشتمل ہے۔اس ایک فیصد اشرافیہ نے ہماری سیاست کو چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے جو دراصل نوآبادیاتی دور کا ایک تسلسل ہے۔
بہت سے ممالک میں سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کی تعداد کے مطابق الیکشن کمیشن کو فیس ادا کرتی ہیںاور یوں الیکشن کمیشن ہرحلقے میں ایک مخصوص جگہ پرعوام کے سامنے امیدواروں کو اکھٹا کرکے میڈیا کی موجودگی میں پارٹی کے منشور کی تشہیر کرنے کا بندوبست کرتا ہے۔ان ممالک میں امیدواروں کو جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں ہوتی یوں سیاسی اخراجات مناسب سطح پر رکھنے میں مدد ملتی ہے اور پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ان جمہوری روایتوں کو پروان چڑھنا چاہئے تاکہ پورا سماج سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔جن ممالک میں جمہوریت نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں وہاں الیکشن کمیشن انتظامی ،مالی اور قانونی طور پر مکمل بااختیار ہوتے ہوئے ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ کا ایک رکنی بنچ بھی حکم امتناہی جاری کر سکتا ہے۔جس سے الیکشن کمیشن کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر سپریم کورٹ ہی آخری ادارہ ہو۔
پاکستان میں کئی حلقوں میں سیاسی پارٹیاں معاہدہ کرکے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھتی ہیں۔موجودہ انتخابی اصلاحات میں کہا گیا ہے کہ جس حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد دس فیصد سے کم ہو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا کہ ایسا کسی معاہدے کے تحت تو نہیں ہوا۔
اور اگر ایسا ثابت ہو گیا تو الیکشن کمیشن متعلقہ حلقے کے الیکشن کو کالعدم قرار دے گا۔سول سوسائٹی کا خیال ہے کہ دس فیصد سے کم ووٹو ں کی تعداد ہونے پر ایسے انتخابات کو فوری طور پر کالعدم قراردیا جانا چاہئے اور مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔اس طرح سیاسی پارٹیاں خواتین کو انتخابی عمل میں شریک کرنے پر مجبور ہوجائیں گی ۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو FMریڈیو کا اجرا بھی کرنا چاہئے جونا صرف خواتین کے ووٹ ڈالنے کی اہمیت کو اجاگر کرے بلکہ عام آدمی کو بھی سماجی تبدیلی کا محرک ہونے کے ناطے سیاسی عمل میںشرکت کے شعور سے آگاہ کرے۔
سیاسی حلقوں کا ایک مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ بارڈر سے متصل حلقوں اور ان علاقوں میں جہاں پولیٹیکل ایجنٹس ریاستی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں وہاں آزادانہ الیکشن ممکن نہیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی بھی اصلاحاتی عمل میں ان حلقوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور یوں مخصوص ریاستی ادارے اپنی صوابدید کے مطابق ان علاقوں میںاپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن ان دور دراز حلقوں میں الیکشن عملے کی نامزدگیاں خود کرے تاکہ عوام کو ان نتائج پر بھروسہ ہوسکے۔
70سال گزر جانے کے باوجود آج بھی جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہے اور نہ ہی ریاست کا عام آدمی سے کوئی معنی خیز رشتہ قائم ہوسکا ہے۔جس کی ایک اہم وجہ اشرافیہ کا جمہوریت ،سیاست اور انتخابی عمل پر قابض ہونا ہے جب تک سپریم کورٹ کی پٹیشن 87/2011پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کروا کر عام آدمی کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنایا جاتا اسوقت تک ان انتخابی اصلاحات کے سماج پر دوررس اثرات مرتب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

تازہ ترین