• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں پاکستانی محنت مزدوری کرکے اور کچھ اپنے ذاتی کاروبار سے اہل خانہ اور پاکستان میں موجود اپنے عزیز و اقارب کے بہتر مستقبل کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔تارکین وطن پاکستانیوں کا دھیان پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں زیادہ وطن عزیز کے اقتصادی ، سماجی ، معاشرتی اور سیاسی حالات کی بچھی ہوئی بساط پر چالیں چلنے والے مہروں پر رہتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں ’’ خبر ‘‘ تاخیر سے بریک ہوتی ہے لیکن اوورسیز پاکستانی اپنے وطن میں عزیز و اقارب کو پہلے ہی خبردار کر دیتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہاں کیا ہونے جا رہا ہے ۔اِن خبروں اور ’’ مخبریوں ‘‘ کی فوری ترسیل وٹس ایپ، فیس بک ، میسنجر اور ایمو کی مرہون منت ہے یعنی یہ فوری بریکنگ خبریں پاکستانیوں کو پتا چلنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آویزاں ہو جاتی ہیں اور دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں تک نہ جانے کہاں سے اور کیسے پہنچ جاتی ہیں ؟تارکین وطن کو خبریں پہنچانے والوں میں پاکستانی اداروں کے بڑے آفیسرز شامل ہیں جو یورپ ، سائوتھ ایشیائی ممالک ، امریکہ ، کینیڈا اور ایسے ہی اُن ممالک میں سیر و سیاحت کے لئے آتے ہیں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی خاصی تعداد مقیم ہو ، یہاں آکر وہ اپنی منشاکے مطابق وقت گزارتے ہیں ، تحائف اکھٹے کرتے ہیں اور میزبانوں کے اخراجات کروا کر وطن واپس چلے جاتے ہیں ،میزبانوں کے کئے جانے والے اخراجات اور منشاءکے مطابق گزرنے والے لمحات اُن آفیسر ز اور محکموں کے نمائندگان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے غیر ملکی میزبانوں کو اندر کھاتے کی خبریں باہم پہنچا کر اُن پر احسان کر دیں ۔پاکستان کے 12ویں جمہوری وزیر اعظم کے پانچ سال مدت پوری نہ کرنے کے بارے میں اوورسیز پاکستانیوں کو پہلے سے معلوم تھا ،تحریک انصاف کے سربراہ بھی آئندہ تاریخوں میں نا اہل ہوں گے تارکین وطن یہ بھی پہلے سے جانتے ہیں ،یہ ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں تو یہاں تک باتیں ہو رہی ہیں کہ 2018کا الیکشن نہیں ہوگا ، وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ جن طاقتوں یا اداروں نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پانامہ لیکس اسکینڈل کی مد میں دائرکئے گئے ریفرنس کی بجائے نا اہلی کی سزا ایک عربی اقامہ رکھنے کا جرم بنا کردی ہے وہ کیسے چاہیں گے کہ آئندہ سال الیکشن ہوں اور میاں محمد نواز شریف پھر سے وزیر اعظم بن جائیں ؟ایک جمہوری اور بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والا وزیر اعظم نا اہل ہو کر پرائم منسٹر ہاؤس کو چھوڑ کر مری میں موجود اپنے گھر چلا گیا، نہ ہنگامہ ہوا ، دھرنا یا احتجاج اور نہ ہی کسی نے عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی منفی اسٹیٹمنٹ دی ؟بلکہ اتنا کہا گیا کہ ہم عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم اپیل کا حق رکھتے ہیں ،کوئی رد عمل نہیں ، اتنی خاموشی کہ ہُو کا عالم ہے ، لیکن بقول ناصر کاظمی مرحوم۔
آو چُپ کی زبان میں ناصر
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں
وزیر اعظم گھر چلے گئے ، لیکن جو شخصیت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُس نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا ،وہ شخصیت خیالی وزیر اعظم بن کر یوم تشکر کے جلسہ سے خطاب کرتی ہے اور تمام احکامات اِس طرح دیتی ہے جیسے عدالت نے میاں نواز شریف کو نا اہل نہیںکیا بلکہ فیصلہ سناتے ہوئے اُس شخصیت کو وزیراعظم بنا دیا ہو ۔مذکورہ شخصیت کے فقروں میں جھول ، جملوں میں بے ترتیبی اور الفاظ کا چناؤ انتہائی مخدوش حالات پیش کر رہا تھا ۔حضرت فرما رہے تھے کہ پاکستان کے تمام صوبوں کے گورنر ہاؤسز مسمار کرکے وہاں پارک، خواتین کیلئے سیر گاہیں اور لائبریریوں کے قیام کے انبار لگا دیئے جائیں گے سوال یہ ہے کہ اِن حضرت نے خیبر پختون خوا میں ابھی تک گورنر ہاؤس گرایا ہے اور نہ ہی وہاں اپنی حکومت ہونے کے باوجود پارک ، لائبریریاں اور سیر گاہیں بنائی ہیں۔ چلیں ایسا کرتے ہیں کہ یوم تشکر کی تقریر میں دیکھے گئے خواب سچ مان لیتے ہیں ، اگر تقریر میں کہی گئی تمام باتیں ضروری ہیں تو موجودہ حکومت اُن گورنر ہاؤسز کو کیوں نہیں گراتی؟ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ تحریک انصاف کے سربراہ کی عوام الناس کو دی جانے والی مستقبل کی سہولتوں پر از خود عملدرآمد کرتے ہوئے بڑی عمارتوں کو مسمار کرکے وہاں غریبوں کے لئے گھر بنا دے ، لگتا تو نہیں لیکن اگر پاکستان میں آئندہ انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف پاکستان میںاسی نعرے سے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوشش کرے گی ۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور تخیلاتی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ میاں نواز شریف کے بعد آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی باری ہے ،خان صاحب یہ آپ کس باری کی بات کر رہے ہیں ، کہیں یہ وہ باری تو نہیں جو آپ اپنی گزشتہ تقریروں میں کہتے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری نے حکومت کرنے کی باریاں لگائی ہوئی ہیں ؟خان صاحب آپ کی بات سچ ہی نہ ہو جائے؟ تارکین وطن پاکستانی وزیراعظم کو نا اہل کئے جانے پر اتنے حیران نہیں جتنے وہ تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے مٹھائیاں بانٹنے پر حیران ہوئے ہیں ، کہ میاں نواز شریف کانا اہل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ اُن کی حکومت اُسی طرح قائم ہے ، آئندہ بننے والا عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ ن سے ہے ، اُس کے بعد مستقل بنیادوں پر آنے والا وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف بھی مسلم لیگ ن کا اہم رکن ہے اب ایسے میں مٹھائیاں کس بات کی؟ کیا حکومت تبدیل ہو گئی ہے ؟تارکین وطن پاکستانی کہنا چاہتے ہیں کہ خان صاحب اگر پاکستان میں تبدیلی لانی ہے تو پہلے اپنی سوچ کو بدلیں ، جو ٹی وی چینلز آپ کی حمایت کریں وہ ٹھیک ہیں جبکہ حق سچ کی بات کرنے والے میڈیا گروپس غلط ہیں ، کل تک جس شخص کے لئے یہ دُعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے اِس جیسا سیاستدان نہ بنانا ، میں اِس کو اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں وغیرہ وغیرہ ،مکافات عمل دیکھ لیںکہ آج وہ’’ چپراسی‘‘ آپ کی پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا اُمیدوار ہے ۔آج میاں نوا ز شریف نا اہل ہوئے ہیں تو کل آپ بھی تو ہو سکتے ہیں ؟خان صاحب کیا آپ اور آپ کے کارکنان خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں کا احترام کریں گے یا کہا جائے گا کہ اِن فیصلوں کے پیچھے بھی ایک مخصوص میڈیا گروپ کا ہاتھ ہے ؟

تازہ ترین