• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سال انیس سو اسی کی بات ہے جب ملک پر فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت تھی اور انکی حکومت کے خلاف ایک سائیکلو اسٹائل پمفلٹ نکلا تھا اس پمفلٹ کا عنوان تھا ’’غاصبوں آمروں سے اقتدار چھین لو‘‘ یہ پمفلٹ بیک وقت تین زبانوں اردو، سندھی اور انگریزی میں تھا اور ملک کے کونے کونے میں تقسیم ہوچکا تھا۔ اور اس کے ساتھ ایسے پوسٹر بھی کئی چھوٹے بڑے شہروں میں لگ چکے تھے۔ ضیاء الحق کی ایجنسیاں چوکنا ہو گئیں اور انہوں نے ایسے ’’تخریبی مواد‘‘ کو لکھنے، چھاپنے، تقسیم کرنے اور دیواروں پر لگانے والوں کا کھوج لگانے اور انہیں گرفتار کرنے کی کوششیں تیز کردی تھیں۔
آخرکار انتیس جولائی کو ناظم آباد کراچی میں پیپلز کالونی کے ایک مکان پر چھاپہ مارا گیا اور اس مکان کے مکین احمد کمال وارثی اور شبیر شر کو گرفتار کر لیا گیا۔ احمد کمال وارثی ایک مزدور لیڈر تھا اور شبیر شر آج کل معروف وکیل ہیں۔ اور اس مکان سے سائیکلو اسٹائل مشین۔ اسٹینسل، روشنائی اور کئی پمفلٹ اور ’’خفیہ تخریبی لٹریچر‘‘ حاصل کر لیا گیا تھا۔ چھاپہ مار ٹیم کے سادہ لباس مسلح افراد مذکورہ مکان کا دروازہ بند کرکے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد مکان کے دروازے پر دستک ہوئی اور اندر گھات میں بیٹھے افراد نے پستول ہاتھ میں لیے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کو دبوچ کر اندر پکڑ لیا۔ دروازے پر دستک دینے والا یہ شخص پروفیسر جمال نقوی تھا۔ پھر جو بھی اس مکان پر آکر دستک دینے والا آتا گیا، قابو ہوتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد مکان کے قریب ایک دبلا پتلا داڑھی والا نوجوان آن نکلا لیکن بھانپ گیا کہ مکان کے ارد گرد کچھ صحیح ماحول نہیں اور وہ نوجوان وہاں سے پچھلے پائوں نکلا۔ تو مکان کو گھیرا ڈالے ہوئے اہلکار اس کے پیچھے لگے اور وہ شخص بھاگ کر سامنے والی سڑک پر آتی بس میں چڑھ گیا پیچھا کرنے والوں نے بندوں کی نال پر بس روک کر اسے اتار لیا۔
بھاگ کر بس پر چڑھنے والا دبلا پتلا کالی داڑھی والا نوجوان اس دور کا انقلابی اور بائیں بازو کا طالب علم رہنما نذیر عباسی تھا۔ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر جو ملک بھر میں فوجی آمریت کے خلاف طلبہ کو پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس (پی ایف یو ایس) تلے جمع کرنے نکلا تھا جو بعد میں ڈی ایس ایف بنی۔ ان چاروں گرفتار شدگان کو اس دن وہاں اس جگہ مل کر سائیکلو اسٹائل اخبار ٹائپ ’’سرخ پرچم‘‘ کی اشاعت کو آخری شکل دینی تھی۔
اس کے ساتھ گرفتار ہونیوالے اس کے ساتھیوں کو یاد ہے کہ جب اسے گرفتاری کے بعد اور ابتدائی تفتیش کے دوران ایک ساتھ رکھا گیا تھا اور بعد میں الگ کردیا گیا۔ پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی، بدر ابڑو، کمال وارثی، شبیر شر اور نذیر عباسی۔ نذیر عباسی کا رویہ اپنے تفتیش کاروں کے ساتھ کافی مزاحمانہ تھا۔ اور پھر نو جولائی کو سرکاری طور پر خبر آئی کہ نذیر عباسی نامی ایک قیدی دل کی حرکت بند ہونے پر فوت ہو گیا ہے۔ اس کی بیوی جو کہ شاید بھٹو حکومت کی پہلی سیاسی قیدی حمیدہ گھانھگرو اور نذیر کے ساتھیوں نے اس کی موت کو حوالات میں قتل قرار دیا۔ اس کے کئی ساتھی اس کے قتل کا الزام اس وقت کے سندھ میں خفیہ ایجنسی کے اہلکار پر لگاتے ہیں۔ 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے نذیر عباسی کیس میں برگیڈیئر امتیاز اور دیگر ان کے خلاف نذیر عباسی کی حوالاتی موت کی ایف آئی آر سندھ پولیس کو داخل کرنے کے احکامات دئیے تھے اور اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ نے نذیر عباسی کی بیوہ اور بیٹی زرقا سے ملاقات بھی کی تھی اور حمیدہ گھانگھرو کو کیس میں تھوڑی بہت ’’پیشرفت‘‘ کے بارے میں بتایا تھا۔ کہتے ہیں چھوٹی زرقا سے جب نذیر عباسی کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ایک عملدار نے پوچھا کہ وہ بڑی ہوکر کیا بنے گی تو اس بچی نے کہا تھا ’’فوجی‘‘۔ کہتے ہیں کہ نذیر عباسی کے حوالاتی قتل کے متعلق جولائی 1994میں ابتدائی تفتیش کرنے والے عملداروں کو اس وقت نذیر عباسی کے تفتیش کاروں کی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر نذیر عباسی کو امتیاز بلا کے حکم پر تشدد کے ذریعے قتل کیا تھا۔ اس تحقیقات کے متعلق جاننے والے کئی باخبر صحافیوں کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر کچھ سابق اہلکاروں کو حراست میں بھی لیا گیا یا بیانات ریکارڈ کروانے کو اسلام آباد طلب کیا گیا تھا۔ ان اہلکاروں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ نذیر عباسی کے قتل کا بوجھ اپنے ضمیر پر لیے پھرتے ہیں اور اب اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس نوجوان قیدی کو زیر حراست کس کے حکم پر قتل کیا گیا۔ اب نہیں معلوم کہ ایسا اعترافی بیان ان اہلکاروں نے بغیر کسی دبائو کے دیا تھا یا ان پر زبردستی تھی۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ بینظیر بھٹو کی آخری حکومت میں نذیر عباسی کے قتل کے متعلق تحقیقات کا سربراہ سینئر عملدار ریٹائرڈ ہوکر اب اخباری کالم نگار بھی بن چکا ہے شاید اس پر بہتر جانتا ہو۔ لیکن یہ طے ہے کہ ملک کی تینوں بڑی اور طاقتور ایجنسیاں اوپرلی اور درمیانی سطح پر جانتی ہیں کہ بائیں بازو کے طالب علم رہنما نذیر عباسی کو کن حالات میں اور کس کے ایما پر قتل کیا گیا۔ تو پھر نذیر عباسی کے قتل پر جے آئی ٹی کیوں نہیں!
بینظیر بھٹو کی حکومت نذیر عباسی کی تحویل میں موت کی مبینہ ایف آئی آر ابتدائی بیانات اور برگیڈیئر امتیاز بلا کی مڈنائٹ جیکال کیس میں گرفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی اور ناہی نذیر عباسی کیس میں کوئی پیش رفت ہوئی تھی۔ لیکن سندھ میں اس کے قتل کی ایف آئی آر 1994میں شاید کاٹ کر ’’سربمہر‘‘ کی گئی تھی۔ جب نذیر عباسی کے ایک ساتھی نے اس وقت کے سندھ میں سینئر وزیر سے نذیر عباسی کے خون سے انصاف کا پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا ’’ہم اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہیں دلا سکتے تو نذیر عباسی کو کہاں دلاتے؟‘‘۔
لیکن ظاہر ہے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں برگیڈئیر امتیاز کی گرفتاری (جسے میرے دوست جیدی نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا اصل میں پہلا دن قرار دیا تھا) نے غیر قیادت کو خوش تو نہیں کیا ہوگا نا! لیکن کیا نذیر عباسی کے زیر حراست قتل پر بھی کوئی جے آئی ٹی بٹھا کر اس کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے؟
’’محض ایک پمفلٹ پر ایک دلکش نوجوان مروادیا گیا‘‘سندھ کے یگانہ روزگار سیاسی کارکن قاسم پتھر سندھی نذیر عباسی کے ساتھیوں سے کہا کرتے!

تازہ ترین