• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی یقین کرے گا کہ لندن میں مشاعروں اور ادبی محفلوں کے لئے جلسہ گاہ یا ہال ملنا ناممکن ہوتا جاتا ہے؟شہر میں سماجی تقریبات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ سارے ہال یا تو پہلے ہی سے محفوظ کرالئے گئے ہیں یا ان کے کرائے اتنے بڑھا دئیے گئے ہیں کہ منتظمین کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ایسا ہی ایک مشاعرہ پچھلے دنوں ہوا۔اس کا اہتمام انجمن ترقی اردو، خواتین برطانیہ نے کیا تھا۔ یہ خواتین ہر سال بڑی تیاریوں سے مشاعرہ کراتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کیوں، ان کا ہر سال اصرار ہوتا ہے کہ مشاعرے کی صدارت میں کروں۔ لاکھ سمجھاتا ہوں کہ میرا شاعری سے کوئی تعلق نہیں اور میں نے زندگی میں کبھی کوئی شعر نہیں کہا۔ مناسب ہوگا کہ یہ فرض کسی شاعر کوسونپا جائے لیکن وہ طرح طرح کی تاویلیں پیش کرکے مجھے رضامند کر لیتی ہیں۔ جن میں ایک تاویل یہ ضرور ہوتی ہے کہ آپ کے ہونے سے مشاعرے کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ قانون دانوں جیسے ان کے دلائل کے جواب میںایک بات ضرور کہتا ہوں کہ صدر مشاعرہ کی کرسی پر بیٹھ کر کم سے کم دو گھنٹے تمام اچھے برے شاعروں کے کلام کی سچّی جھوٹی داد دینی پڑتی ہے۔پھر جب خدا خدا کرکے میرے بولنے کی باری آتی ہے تو اعلان کیا جاتا ہے کہ ہال خالی کرنے کا وقت ہوگیا ہے، جلسہ گاہ کا نگراں کسی وقت بھی آکر روشنیاں گُل کردے گا اس لئے براہ کرم اپنا خطبہ ء صدارت جہاں تک ممکن ہو مختصر رکھئے گا۔
اس سال بھی ان ہی تمام مرحلوں سے گزرنے کے اندیشے دل میں لئے ہم جلسہ گاہ کی تلاش میں نکلے۔ اعلان ہوا تھا کہ مشاعرے کے لئے ایک چرچ کے پہلو میں چھوٹا سے ہال ملا ہے۔ وہ بھی باہر سے نظر نہیں آتا اس لئے وہاں کسی کو کھڑا کردیا جائے گا جو مہمانوں کو راستہ دکھاتا جائے گا۔ ہم بھی پہنچے۔ راستہ دکھانے والے نے ایک پتلی سی گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گلی میں سیدھے چلے جائیے، سامنے ہال نظر آجائے گا۔ و ہ گلی کچھ زیادہ ہی پتلی نکلی، اتنی کہ اس میں سے گزرنے والا شخص اگر کہیں سینہ تان کر چلے تو دونوں شانے چھل جائیں اور اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر چلیں تو کچھ دیر کے لئے علیحدگی اختیار کرنا پڑے۔ شکر ہے کہ ہم خیریت سے اس گلی کو پار کرگئے۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ اور ہر مشاعرے میں ہوتا ہے۔ وہ ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔ انجمن کی خواتین نے چائے اور لوازمات کا بڑ ا انتظام کیا تھا۔ ان خواتین میں انجمن کی بانی نجمہ عثمان پیش پیش ہوتی ہیں۔ وہی مشاعرے کی نظامت کر رہی تھیں۔ دو درجن کے قریب شاعر مدعو تھے۔ اکثر وہی دیکھے بھالے، جانے پہچانے اور بعض کے ہاتھوں میں وہی پرانی بیاض اور وہی بار بار کا سنا ہوا کلام۔ لیکن نجمہ عثمان نے اس بار ایک کمال یہ کیا کہ نہ صرف لندن کے مانے ہوئے کئی شاعروں کو بلکہ لندن سے باہر کے شاعروں اور شاعرات کو خاص طور پر بلایا تھا۔ ان میں برلن کے عارف نقوی، برمنگھم کے نعیم حیدر، نگہت افتخار، گلناز کوثراور نوٹنگھم کی فرزانہ خان نیناںشامل تھیں۔ ان سب کے آنے سے محفل میں تازہ ہوا کا جھونکا آنے کا خوشگوار گماں ہوا۔ اچھا لگا دیسی اور پردیسی سخن فہموں کا یکجا ہونا۔ لندن کے سرکردہ شاعروں میں غالب ماجدی، ایوب اولیا، مصطفیٰ شہاب، ناظر فاروقی اور عقیل دانش شامل تھے۔ سنہ بہتّر میں برطانیہ آکر میں نے جو پہلا مشاعرہ سنا تھا اس میں بھی جناب عقیل دانش اور ان کے دوست اطہر راز مرحوم شریک تھے۔ اطہر راز کی بات پر یاد آیا کہ ان چالیس پچاس برسوں میں برطانیہ میں آباد اردو شاعروں کی اتنی بڑی تعداد عالم بالا کو سدھا چکی ہے کہ زبان اردو کے مستقبل کے حوالے سے دل میں کیسے کیسے خیال اٹھتے ہیں، د ل ہی جانتا ہے۔
مشاعرہ ہوا۔ میں کرسیء صدارت پر براجمان داد دینے کا فرض انجام دیتا رہا۔ پھر جب خطبہ صدارت کی باری آئی، ہال خالی کرنے کا وقت بھی آن پہنچا۔ میں نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ مشاعروں کی صدارت کرتے کرتے میں ڈھائی منٹ لمبی تقریریں کرنے کا ماہر ہوگیا ہوں۔ اس ذرا سی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہی کہوں گا کہ میرا مشاعروں اور شاعری سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہاں، ایک شے ہے جو مجھ میں اور مشاعروں میں مشترک ہے اور وہ ہے اردو زبان۔ اردو مجھ سے ہو نہ ہو، یہ طے ہے کہ میں اردو زبان سے ہوں، اس کا دیا کھاتا ہوں، اسی کے سہارے پلا بڑھا ہوں۔ مشاعرے کاسارا کا سارا معاملہ نثر سے نہیں، نظم سے ہے۔ اور شعر ہی اردو کے ماتھے کا جھومر ہے۔ سوچیں تو خیال ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ انیسویں اور بیسویں صدی میں اتنا بے مثال شعر کہہ چکے ہیں کہ اس کے بعد نیا شعر کہنے کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔مگر ہم پھر بھی شعر کہے جارہے ہیں۔ یہی شعر گوئی زبان اردو کی اصلاح اور بقا کے لئے ضروری ہے۔ لفظ نظم وہیں سے نکلا ہے جہاں سے تنظیم اور منظم اور انتظام جیسے لفظ پیدا ہوئے۔ یہ خوبی نثر میں نہیں۔ نثر اس پابندی سے آزاد ہے۔مثال کے طور پرذرا د یر پہلے کسی شاعر نے لفظ زخم یو ں ادا کیا کہ خ پر زبر کا گما ں ہوا۔ جیسے انہوں نے زَخَم کہا ہو۔ مجمع نے زیر لب ان کی اصلاح کی اور آہستہ سے ’زخم‘ صحت کے ساتھ ادا کیا۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ آپ نظم لکھیں یا نثر، ایک بات یاد رکھیں کہ آپ تاریخ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ میں نے انڈیا آفس لائبریری میں کئی برس لگا کر انیسویں صدی کی اردو کتابیں پڑھیں تو احساس ہوا کہ لکھنے والوں نے لکھتے ہوئے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ڈیڑھ دو سو سال بعد پڑھنے والے ان کی تحریر کو تاریخ کے طور پر پڑھیں گے۔ وہ اس ادب میں اس حقیقت کو تلاش کریں گے کہ انیسویں صدی میں لوگ کیسے جیتے تھے، ان کے ُدکھ کیسے تھے او رسُکھ کیسے۔میں نے حاضرین سے کہا کہ آپ سب شعر کہتے ہیں، آپ کے شعر آپ کے زمانے کے آئینہ دار ہونے چاہئیں۔ سو سال بعد کوئی محقق مچان سے آپ کی تصنیف اٹھائے تو اسے پتہ چلے کہ سنہ دو ہزار سترہ میں برطانیہ میں آباد تارکین وطن کے جذبات اور احساسات کی نوعیت کیا تھی۔ عشقیہ شعر ضرور کہئے لیکن سو سال بعد کوئی مورخ شاید ہی یہ بات جاننا چاہے کہ سنہ دو ہزار سترہ میں لوگ عشق کیونکر کرتے تھے۔ پرانی بات ہی کہنی ہو تو ضرور کہئے مگر نئے ڈھنگ سے کہئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر اچھا شعر میر تقی میر کا ہوتا ہے، چاہے کسی نے بھی کہا ہو۔

تازہ ترین