• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرمین عبید نے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے موضوع پر فلم بنائی تھی جس کو کہ وزیراعظم نے مخصوص لوگوں کے ساتھ دیکھا۔ کہا بھی کہ اس کے خلاف قانون اور مستحکم کیا جائے گا مگر ہر روز ایک نہ ایک یہ قبیح واقعہ ہوتا رہتا ہے۔ قانون حرکت میں اتنا آتا ہے کہ مقدمہ درج کرکے، زیادتی کرنے والے شخص کو مفرور قرار دے کر، انتظار کا وعدہ کرکے فائل بند کردی جاتی ہے مگر واقعہ ایسا ہو کہ باقاعدہ پنچایت بیٹھے اور حکم دے کہ دوسرے خاندان کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کرو۔ یوں اپنی طرف سے حساب برابر کردیا جاتا ہے۔ اخباروں، ٹی وی اور کالموں میں شور مچنے کے بعد، پھر نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ہم پھر رونے پیٹنے لگتے ہیں۔ یوں ستر برس سے زندگی گزر رہی ہے۔ یہ بات بھی اس لئے کہ جن زیادتیوں کی رپورٹ لکھ دی جاتی ہے، وہ پریس یا ٹی وی میں آجاتی ہیں۔ باقی جو کچھ اور جس طرح ہمارے جاگیرداروں کے گھروں میں اور دیہات میں ہوتا ہے، اس کا ذکر تو خدا کی پناہ۔
اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ دیہات میں پنچایتوں کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ جو جی چاہے اور جیسے چاہیں اور فیصلہ کریں من مانی کریں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں ان پڑھ لوگ آسکتے ہیں۔ تو پھر پنچایتوں میں تو گائوں کا مکھیا اور اس کے سنگی ساتھی ہی ہوتے ہیں۔ جدید زمانے اور موجود سینیٹ اور قومی اسمبلی کو یہ کیسے گوارا ہوا کہ پنچایتوں کو قانونی حیثیت دیں۔ علاوہ ازیں سلیم صافی بھائی کا پروگرام ’’جرگہ‘‘ کیا ایسا مقبول ہوا کہ اب جرگے کو بھی قانونی حیثیت دیدی گئی۔ جرگہ تو قبائلی زمانوں کی پیداوار ہے اور تھا۔ اس وقت جب مقامی کونسلوں کو آئینی حیثیت دی جاچکی ہے۔ فی الوقت جرگہ کو مستحکم کرنے بلکہ آئینی حیثیت دینے کی کیا ضرورت ہے! یہ ساری باتیں سن کر میرا جی کرتا ہے کہ ہمارے جیسےمعاشرے میں، عورتوں بلکہ لڑکیوں کو مردوں کی بجائے مغرب اور جاپان کی طرح یہ روبوٹ ہی مل جائیں تو زندگی آسان ہوجائے۔ یہ روز روز کا ٹنٹا ہی ختم ہوجائے۔ اب جو نئے روبوٹ ہیں وہ فون کرکے پوچھ لیتے ہیں کہ گھر کب تک پہنچ رہی ہو۔ کھانا مائیکرو ویو میں گرم کرکے رکھتا ہوں۔ یہیں مجھے روبوٹ سے متعلق ایک پرانی فلم بھی یاد آگئی ہے۔ فلم میں ہیروئن مردوں کے مسلسل ذلت آمیز سلوک اور رویے سے تنگ آکر، ایک روبوٹ لے آتی ہے۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے کچھ عرصے بعد، فلم کی ہیروئن کو محسوس ہوتا ہے کہ روبوٹ میں مخصوص حس جاگ رہی ہے اور وہ آخر اس روبوٹ کو توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی ہے۔
ہمارے یہ حالات ہیں کہ بچیوں کو کھیتوں میں کپاس کے ڈو ڈے توڑنے سے لے کر، مٹر، مرچیں، توریاں بھنڈیاں کے علاوہ زمین سے آلو نکالنے اور گو بھی توڑنے کا کام بھی عموماً کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام تو الگ رہے، ہمارے دیہی اسکولوں میں عموماً ’’لڑکیوں کا غسل خانہ‘‘ ہوتا ہی نہیں، کئی اسکولوں میں تو لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ایک باتھ روم بنادیا جاتا ہے۔ باتھ روم ہو تو پانی ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہرچند پبلسٹی بہت ہے کہ ہم نے یہ کردیا، ہم نے وہ کردیا مگر واقعتاً صورتحال بہت خراب ہے۔ اس کے علاوہ مشترکہ خاندانوں میں بھی ادھر لڑکی ذرا بڑی ہوئی، ماں کو اس کی فکر لگ جاتی ہے۔
بچیوں اور بچوں کے لئے جنسی تعلیم نہ گھروں میں ہے، نہ نصاب میں اور نہ جلد ہی کوئی شروع کرنے کی تحریک اس لئے نہیں ہے کہ آئے روز پیر فقیروں کے نام پر، بدنام زمانہ لوگ ہر عمر کی عورت کے ساتھ بدفعلی کرتے نظر بھی آتے ہیں اور ایسے لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں۔ ایف ایم ریڈیو اور چھوٹے شہروں کے چینل پر غیر مستند حکیم، ڈاکٹر اور اب تو خواتین بھی طرح طرح کے ٹوٹکے بتاتی ہیں اور پوچھنے والا نہیں ہے۔
ان ستر سالوں میں، ہمارے ساتھ سیاست کے نام پردھوکے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ہر پانچ سال بعد بے وقوف بنایاجاتا ہے۔ لائن مین اور ایکسائز اسسٹنٹ، ممبر پارلیمینٹ اور سینیٹ بنتے رہے ہیں۔ عدالتوں نے 1948سے لے کر اب تک، خدیجہ جیسی لڑکی جس کو لڑکے نے 19دفعہ، جسم پر خنجر مارے تھے، جس کے مقدمے کو ایک ماہ میں ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ گھسٹ رہا تھا۔ شکر ہے کہ خدیجہ کے حق میں فیصلہ ہوگیا۔ قصور میں پہلے لڑکوں کے ساتھ زیادتیوں کی فلمیں ملکوں ملکوں من مانی قیمت پر فروخت کی گئیں اور اب لڑکیوں کی باری ہے۔ پہلے بھی مقدمہ چلانے اور سزائیںدینے کا کہا گیا۔ اب بھی یہی وعدے ہیں۔اب تو ساری قوم رو رو کر پوچھ رہی ہے۔ ’’ہمیں جانا کہاں ہے‘‘۔ بڑے گھروں میں غریب بچیاں بیگمات کے پیروں کی مالش کرتے کرتے مار کھاتی جاتی ہیں، بچی کھچی روٹی کھا کر منہ کو تالے لگائے، اترن پہن کر جوان ہوتی ہیں تو گھر کے لاڈلے ، منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے، ان کو استعمال بھی کرلیں تو شور مچانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ یاد کریں چین ہمارے بعد آزاد ہوا تھا۔ جنوبی کوریا اور جاپان، دوسری جنگ عظیم میں برباد ہوکر آج، دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کے باعث شناخت رکھتے ہیں۔ ہمارے جوان تو کے ٹوپر چڑھتی غیر ملکی لڑکی ہو کہ چین سے مزدوری کرنے آنے والی خاتون ہو آسمان کی جانب بندوقوں سے ٹھاہ ٹھاہ کرکے خوش ہیں۔

تازہ ترین