• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان، کرپشن مافیا کا بہت ستایا ہوا ہے، یہ ملک بنا تو اسلام کے نام پر تھا مگر ایک کے بعد ایک یہاں جو حکومتیں آئیں، انہوں نے اسلام کو تو بھلا دیا باقی ملک کو کرپشن کے حوالے کردیا گیا، ایک کے بعد آنےوالی حکومتیں یہی کچھ کرتی رہیں، مارشل لائوں نے تو ملک میں کرپشن کی بنیاد رکھی مگر جب جمہوریتیں آئیں تو ان کی بھی اکثر حکومتوں نے ملک کے سرمایہ داروں سے گٹھ جوڑ کرکے کرپشن کو آگے بڑھایا، اپنے بینک بیلنس بنائے اور دیگر ملکوں کے بینکوں میں اربوں ڈالر جمع کرنے کے علاوہ کئی عمارتیں بھی خریدیں جبکہ ملک کے غریب عوام کی کوئی داد رسی نہیں کی گئی، افسوس تو یہ ہے کہ اکثر جمہوری حکومتوں میں اور مارشل لا حکومتوں میں سارے اہم ادارے بھی کرپشن میں ملوث پائے گئے، ہمیں سب سے زیادہ شکایتیں ووٹ کے ذریعے منتخب ہوکر اقتدار میں آنے والی حکومتوں اور عدلیہ سے ہے۔ سلام ہے موجودہ عدلیہ پر جنہوں نے کرپشن میں ملوث منتخب وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیکر یقیناً ملک پر قابض ’’کرپٹ‘‘ مافیا کو ایک جھٹکا دیا ہے، حالانکہ یہ جھٹکا فی الحال’’معمولی‘‘ نوعیت کا ہے، یہی وجہ ہے کہ متعلقہ پارٹی کے رہنما اور کچھ بڑے قانون دان بھی ا س فیصلے کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یہاں تک ریمارکس پاس کررہے ہیں کہ یہ فیصلہ ’’عدالتی بغاوت‘‘ ہے۔ جناب یہ عدالتی فیصلہ ’’عدالتی بغاوت‘‘ہے یا ہمارے ان مہربان قانون دانوں کے یہ ریمارکس ’’عدالتی بغاوت‘‘ہیں، بہرحال اس سلسلے میں بھی فیصلہ عدالت عالیہ کرے گی یا تاریخ کرے گی۔ میرا تو خیال ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اس عدالتی فیصلے کے نقادوں کا موقف ہے کہ اقامہ کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کو جو نااہل قرار دیا گیا ہے وہ آئین کی شق 62 ون ایف سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم کو یہ زیب دیتا ہے کہ دوسرے ملک میں خفیہ طریقے سے اقامہ لینے کے بارے میں حقائق نہ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران ظاہر کرے نہ قومی اسمبلی کا امیدوار بنتے وقت یہ راز فاش کیا جائے، آئین کی شق 62 ون ایف تو کجا اکثر قانون دان اور سینئر صحافی تو اس رائے کے ہیں کہ ملک میں 62 ون ایف کا اطلاق پہلی بار نہیں ہوا۔ آیئے دیکھیں کہ آئین کی شق 62 ون ایف کہتی کیا ہے۔ میں یہاں اس شق کا متن من و عن شامل کررہا ہوں جو کہتاہے کہ:
"He is sagacious, righteous, non-profilgate, honest and ameen, there being no declaration to the contrary by a court of law"
میں قارئین سے گزارش کروں گا کہ وہ اس شق کے متن کو پڑھیں اور پھر خود فیصلہ کریں کہ بیرون ملک اقامہ کے حوالے سے میاں نواز شریف کا کنڈکٹ خاص طور پر ’’ایماندار‘‘ (Honest) اور امین (Ameen) کے دائرے میں آتا ہے؟ کیا حقیقت چھپانے والے کو کسی ملک کا وزیر اعظم ہونا چاہئے؟ مگر یہ تو ابھی ’’جھٹکا‘‘ہے، سپریم کورٹ نے نیب کو شریف خاندان کے افراد کے خلاف پانچ ریفرنس دائر کرنے کو بھی کہا ہے، چند دنوں کے اندر نیب کی طرف سے یہ ریفرنس بھی دائر ہوں گے اور ان کی بھی سماعت ہوگی۔ ٹھہریئے ان ریفرنس کی سماعت کے بعد عدالت عالیہ کے فیصلے کا بھی انتظار کریں۔ عوام تو شریف خاندان کے سارے افراد کے عدالت میں اور عدالت سے باہر بیانات پڑھتے رہے ہیں اگر عوام کو اس سلسلے میں فیصلہ دینے کا اختیار دیا جائے تو عوام جو ان کے خلاف فیصلہ دیں گے وہ ساری دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوگا۔ میں تو اس رائے کا ہوں کہ یہ چھوٹا سا جھٹکا ہی عوام میں عدلیہ کا وقار بڑھانے کے لئے کافی ہے، یہ فیصلہ تو معجزے سے کم نہیں، کسے اعتبار تھا کہ ’’سیاسی ناخدا‘‘ کے خلاف ایک ’’ عدلیہ‘‘ ایسے کسی کیس کی سماعت کرنے کی بھی ہمت کرسکتی تھی؟ اب تک ججز لاہور کے وزیر اعظم کے خلاف کیا فیصلے دیتے آئے ہیں اور لاڑکانہ کے وزیر اعظموں کے خلاف کیا فیصلے دیتے آئے ہیں وہ نہ فقط تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ فیصلے عوام کے سینوں پر لکھے ہوئے ہیں، ان فیصلوں کو چھوڑیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے سپریم کورٹ کے ’’سندھی‘‘ چیف جسٹس کے ساتھ کیا کیا؟ سپریم کورٹ پر اپنے کارکنوں کے ذریعے حملہ کرایا گیا جس کے نتیجے میں چیف جسٹس کو عدالتی کمرے سے نکل کر اپنی جان بچانی پڑی۔ فقط اتنا ہی نہیں مگر یہ مثال بھی دنیا بھر میں نہیں ملے گی کہ حکومتی دبائو استعمال کرکے سپریم کورٹ کے ججوں کو دو حصوں میں تقسیم کرایا گیا اور دوسرے گروپ کی طرف سےچیف جسٹس کو باہر نکال کر دم لیا، اس ملک میں ہمارے ’’شریف خاندان‘‘ کی طرف سے فقط عدلیہ کے حوالے سے یہ ہوتا رہا ہے، لہٰذا ایسے خاندان کے خلاف ایک جائز اور جراتمندانہ فیصلہ دینے پر موجودہ عدالت عالیہ کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔ میری تو یہ تجویز ہے کہ ملک بھر کی سول سوسائٹی کے خود دار افراد کسی ایک دن اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے جمع ہوں اور قطاریں بناکر موجودہ اعلیٰ عدلیہ کو ’’سول‘‘ سلامی پیش کی جائے۔ فقط موجودہ عدلیہ ہی کیوں میرے خیال میں جے آئی ٹی نے بھی ایک ایسی جرات کا مظاہرہ کیا ہے جس کی کم سے کم پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی، ملک کے عوام اور خاص طور پر صحافی اور پنجاب کے سرکاری افسران اس بات سے خوب واقف ہیں کہ کیا پنجاب کی حکومت اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی زیر سایہ وفاقی حکومت کا کوئی افسر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا۔ میں اپنے اس کالم میں شروع سے سپریم کورٹ کی تعریف کرتے ہوئے اسے ابھی ملک کی ’’کرپٹ مافیا،، کے لئے ایک چھوٹا سا ’’جھٹکا،، قرار دے رہا ہوں، ابھی تو نہ فقط پنجاب کی کرپٹ مافیا جو فقط شریف خاندان تک محدود نہیں ہے مگر اور سیاسی پارٹیوں، افسران اور سرمایہ داروں تک پھیلی ہوئی ہے، ان سب کے کالے کارناموں کو اس عدلیہ نے عوام کے سامنے لانا ہے مگر فقط پنجاب اور وفاقی حکومت ہی کیوں اس وقت کرپٹ مافیا کے سب سے زیادہ متاثر خود سندھ کے عوام ہیں لہٰذا نہ فقط سندھ مگر بلوچستان اور کے پی کے کرپٹ مافیا کو بھی جیل میں داخل کرنا ہے، دیکھیں آگے آگے ہوتا ہے کیا؟

تازہ ترین