• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے ملک میں موجودہ سیاسی بحران ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی عوام نے بھی اس فیصلے پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو عدالتی فیصلہ خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ملک میں احتسابی عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس پر تاریخ ساز فیصلے نے پاکستانی قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ وطن عزیز کی 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں احتساب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے تاریخی فیصلے میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ، قومی اسمبلی کی نشست اور عوامی نمائندگی کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر، اسحاق ڈار کو بھی سپریم کورٹ کے فل بنچ نے نااہل قرار دے دیا ہے۔ اگرچہ میاں نوازشریف کا کہنا ہے انہیں کرپشن کے الزام میں نااہل نہیں کیا گیا بلکہ انہیں اپنے بیٹے کی آف شور کمپنی سے تنخواہ لینے اور اسے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی سزا ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا ہے کہ نوازشریف آئین کے آرٹیکل 62،63کے تحت اب عوامی نمائندگی کے لئے اہل نہیں رہے چونکہ انہوں نے اپنے اثاثوں کو ظاہر نہیں کیا ہے اس لئے وہ صادق اور امین بھی نہیں رہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کے بعد نوازشریف وزارت عظمیٰ سے فارغ اور وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوچکی ہے۔ اس وقت ملک میں عملاً کوئی وفاقی حکومت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے شاہد خاقان عباسی عبوری وزیراعظم بن چکے ہیں اور مستقل وزیراعظم کے لئے شہباز شریف کو نامزد کیا گیا ہے۔ چونکہ مسلم لیگ(ن) کی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ اب شہباز شریف پہلے سابق وزیراعظم نوازشریف کی خالی ہونے والی نشست پر الیکشن لڑیں گے اور وہاں سے منتخب ہو کر وہ مستقل وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے۔ قومی اسمبلی کی نشست کے الیکشن پراسیس کے لئے 45دن کا عرصہ درکار ہے۔ اگر شہباز شریف وزیراعظم بنتے ہیں تو پھر انہیں صرف آٹھ ماہ کی مدت ملے گی۔ کیونکہ آئین کی رو سے 2018میں نئے الیکشن ہونا لازمی ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ عدلیہ نے ماضی کے کچھ فیصلوں کی طرح پاناما کیس میں نظریہ ضرورت سے کام نہیں لیا بلکہ اس مرتبہ دو ٹوک اور جاندار فیصلہ دے کر عدلیہ کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ پانامہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا نمایاں اور بھرپور کردار ہے اور انہیں اس کا حقیقی کریڈٹ ضرورملنا چاہئے۔ انہوں نے پانامہ کیس پر سب سے پہلے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اُس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تذبذب کا شکار تھے ان کا خیال تھاکہ عدالت عظمیٰ سے انہیں انصاف نہیں ملے گا۔ لیکن اس کے برعکس سینیٹر سراج الحق پُرعزم تھے کہ پانامہ کیس پر وہ قانونی جنگ کو جیتیں گے۔ عدالت عظمیٰ میں جماعت اسلامی کی استدعا پر عدالتی کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی جسے عمران خان نے پہلے قبول نہیں کیا تھا مگر بعدازاں سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے عدالتی کمیشن اور جے آئی ٹی کوتشکیل دیا۔ جے آئی ٹی کے ارکان کی کارکردگی کو بھی قومی سطح پر سراہا گیا۔ انہوں نے جس انداز میں اپنی سرکاری ملازمت کو خطرے میں ڈال کر محض دو مہینوں کے اندر تفتیش اور تحقیقات کا معرکہ سر کیا اور وہ یقیناً ایک قابل تحسین امر ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، حسین نواز، حسن نواز، مریم نواز کیپٹن صفدر اور اسحٰق ڈار کے خلاف قومی احتساب بیورو کو ہدایت کی ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے اندر قومی دولت لوٹنے اور اثاثے چھپانے کے الزام میں ریفرنس دائر کریں اور سپریم کورٹ کے جج کے ذریعے چھ ماہ میں اس کا فیصلہ کرنے کے احکامات بھی جاری کئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن مکافات عمل کا شکار ہوچکی ہے اور اگلے آٹھ نو ماہ اس پر بہت بھاری گزریں گے۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے علاوہ حدیبیہ مل کا معاملہ بھی زیر بحث آچکا ہے۔ حدیبیہ کیس میں شہباز شریف کا نام بھی شامل ہے۔ اگر شہباز شریف مسلم لیگ ن کی طرف سے آئندہ دو ماہ میں وزیراعظم بن بھی جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اگلے چند مہینوں کے دوران شدید ترین سیاسی دبائو میں ہوں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ مائنس نوازشریف ہونے کے بعد اب مسلم لیگ ن سیاسی طور پر تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان سمیت کئی وفاقی وزرا اپنا سیاسی راستہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں لگتا یہ ہے کہ جیسے ماضی میں مسلم لیگ ق کو کمزور کر کے تحریک انصاف کو الیکٹیبلز دیئے گئے تھے بالکل اسی طرح اب مسلم لیگ ن کا بھی بٹوارہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب نواز شریف کے لئے یہ ایک بڑا امتحان ہوگا کہ وہ ان حالات میں کیسے اپنی پارٹی کو متحد رکھ پاتے ہیں؟ پاکستان کی 70سالہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا۔ نوازشریف تین بار ملک کے وزیراعظم بنے ان کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور دو سال پانچ مہینے، دوسرا دور دو سال سات مہینے اور تیسرا دور چار سال ایک ماہ تک رہا۔ بدقسمتی سے وہ کبھی بھی اپنے پانچ سال پورے نہیں کرسکے۔ ریاستی اداروں سے ٹکرائو کی پالیسی نے انہیں سخت نقصان پہنچایا۔ گیارہ مئی 2013کو نوازشریف کو جب تیسری بار اقتدار ملا تھا تو ان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں کو اب نہیں دہرائیں گے۔ اور ملکی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں سے حسب سابق چپقلش جاری رکھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اپنی مدت پوری کئے بغیر ایک بار پھر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر بھی حکومت وزراء نے ناروا اور نازیبا طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ اپوزیشن، جے آئی ٹی اور عدلیہ کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر مہذبانہ زبان استعمال کی گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی وفاقی وزراء کے ان بیانات کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان کو کھلم کھلا دھمکیاں بھی دی گئیں مگرانہوں نے ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومتی کارکردگی اب تک ہر لحاظ سے مایوس کن رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے 2013کے الیکشن میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ ختم کریگی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا بلکہ نواز حکومت کے تمام تر دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ المیہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ آج چار سال گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہوسکی، مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور غربت نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ شریف فیملی کا احتساب ہونا ایک اچھی بات ہے مگر احتساب کا عمل اب کسی بھی صورت رکنا نہیں چاہئے۔ اس سلسلے کو اب مستقل چلنا چاہئے۔ پانامہ لیکس، دبئی لیکس اور ملکی قرضہ معاف کرانے والے دیگر پاکستانیوں کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہئے۔ احتساب کا عمل اب جاری رہنا چاہئے مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں جمہوریت کو خطرات لاحق نہ ہوجائیں۔ مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی جماعتوں کو اس اہم مرحلے میں دانش مندی کے ساتھ جمہوری عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔

تازہ ترین