• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرزا اور میں بہت دیر سے انور مسعود صاحب کی شہرہ آفاق نظم ’’سوچی پئے آں ہن کی کریئے‘‘ کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ میرزا کہ جن کو پاکستان کے سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کے ہر ممبر سے اللہ واسطے کا بیر ہے، انور مسعود کے مصرعے کہ؎
ووٹاں شوٹاں پا بیٹھے آں
سوچی پیئے آں ہن کی کریئے
لے کر بیٹھے تھے۔ کہنے لگے دیکھ لو وہ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ووٹ ڈال کر ایک منتخب حکومت لا کر اس ملک کے عوام کا کچھ بھلا ہو جائے گا۔ وہ اب کس سوچ میں ہوں گے۔
میں نے کہا کہ پھر مشرف نے ٹھیک ہی کہا نا کہ اس ملک کو پٹری سے اتارنے والے اصل میں سیاستدان ہیں۔ جب بھی اس ملک میں بہتری آئی ہے وہ ڈکٹیٹروں کی وجہ سے آئی ہے۔ وہ ضیاء الحق اور اپنے دور کو شاندار دور کہتے ہیں۔ پاکستان توڑنے کی ذمہ داری بھی وہ سویلینز پر ہی ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر بھٹو پر۔ میرزا نے کہا ’’وہ بھگوڑا مشرف جو کبھی کمردرد کا بہانہ کرکے عدالت جانے کے بجائے اسپتال پہنچ جاتا ہے اور کبھی عدالت میں وعدہ کرکے دبئی بھاگ جاتا ہے۔ یہ کہ عدالت جب بھی بلائے گی وہ واپس آئے گا۔ ملک سے ایسا بھاگا ہے کہ اسے بھگوڑا کہنے کے بجائے اور کیا کہاجائے۔ اور میاں یہ جو اس نے ضیاء الحق، ایوب خان اور خود اپنے دور کا ذکر کیا ہے تو کیا ہم یہ بھول جائیں کہ ایوب خان نے 65ء کی جنگ میں ملک کو جھونکا۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو ناجائز طریقے سے ہرایا۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کاایسا بیڑا غرق کیا اور اپنی ناکام پالیسیوں، اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے کی بنیاد پرمشرقی پاکستان میں نفرت کی ایسی آگ کو جنم دیا کہ جس کے شعلے بڑھتے بڑھتے اس مقام پر پہنچے کہ پھر ملک کو دولخت کردیا گیا۔ باقی رہی سہی کسر ایک اور ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے پوری کردی۔
اور میاں یہ ضیاء الحق کو تو میں رئیس المنافقین کہتاہوں۔ جھوٹ جب سب سے اونچی مسند سے بولا جائے تو پورے ملک میں منافقت پھیلتی ہے۔ پھر منشیات، اسلحہ اور افغان وار لارڈز کا پاکستان میں آجانا۔ امریکی پالیسی سازوں کے سامنے جھک کر ان کے غلام بن جانا۔ یہ سب کس کا کارنامہ ہے۔ یہ کہہ کر عوام کو بے وقوف بنانا کہ اگر آپ نے اسلام کو چنا تو گویا آپ نے مجھے منتخب کرلیا۔ بھائی یہ ڈکٹیٹر اس ملک کو کچھ نہیں دے سکتے۔
اب مشرف کو لو، امریکیوں سے ڈبل گیم کھیلنا، بگٹی کا قتل، بلوچوں کو ناراض کرنا اور کارگل وار میں ہزاروں فوجیوں کو انڈیا کے ہاتھوں مروانا ، کوئی ایک جرم ہوتو بتائیں۔ امریکی ڈالروں نےجب بھی ڈکٹیٹروں کے ذریعے ملک میں عارضی طور پر معیشت بہتر کی ہے ان کےجاتےہی ملک ابتری کا شکار ہوا ہے۔ اس کو دوبارہ پٹری پر ڈالنا جان جوکھوں کے کام سے کم نہیں۔
تو میرزا پھر میں نے کہا ان کے جاتے ہی تو پھر کبھی نوازشریف اور کبھی پی پی پی اس مشکل کام کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ کبھی ان کے لئے بھی کچھ اچھا بول دو۔
کہا : ’’اچھا بولوں؟‘‘ میرزا گویا ہوئے۔ ’’پی پی پی اور نواز لیگ کو اثاثے بنانے کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے کچھ مہلت ملے تو ملک کے لئے کچھ کریں۔ کبھی غلام اسحٰق کے ساتھ مل کر، کبھی کاکڑ کے ذریعے اور کبھی اپنے ہی منتخب فاروق بھائی کے ذریعے ان دونوں نے سازشوں کے علاوہ کیا نہیں کیا ہے اور پھر برسراقتدار آتے ہی بینظیر تھیں تو ان کو زرداری پڑ گئے اور اب نوازشریف ہیں تو خود ان کی اپنی ذات اور ان کے بچے۔ اثاثوں پہ اثاثے، ارے ان سب کا پیٹ کب بھرے گا اور یار اتنا جھوٹ۔ اتنے جعلی کاغذات، منی ٹریل کا پتا مل رہا ہے نہ لندن فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں کچھ ٹھوس بتاپا رہے ہیں ان کے خاندان کے لوگ۔ میرا تو ان سب سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔‘‘
میں نے کہا کہ میرزا پھر تحریک ِ انصاف ہی واحد امید رہ گئی ہے۔ میرزا کی تو گویا ہنسی نکل گئی۔ بولے یہ عائشہ گلالئی کے حملے سے عمران خان نکلے گا تو پتا چلے گا۔ ابھی تو عمران خان کے بلیک بیری کا معائنہ ہوگا۔ شاید اس میں کچھ اور خواتین کو بھیجے گئے میسیج بھی نکل آئیں۔
میرزا۔ میں نے کہا خدا کے لئے خلق خدا کا کسی پر تو اعتبار رہنے دو۔ سبھی بے اعتبار ےہوگئے تو مایوسی کا ایسا اندھیرا چھائے گا کہ سب بربادہو جائے گا۔ ’’خلق خدا؟‘‘۔’’ ارےاسے تم خلق خداکہتے ہو۔ خدا کی قسم ان کی جہالت کا یہ حال ہے کہ اگر میں کسی چوک میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کروں کہ تم میں سے جس کی زبان کی نوک ،ناک کی نوک کو چھولے گی وہ جنت میں جائے گا تو سبھی اپنی زبانیں نکال کر ناک چھونے کی کوششوں میں مگن ہو جائیں گے۔ میاں یہ صرف جاہل ہی نہیں خائن بھی ہیں۔ ان سے ملاوٹیں کیامیں کرواتا ہوں۔ رشوت کے بازار اور حرام خوری کس نے شروع کئے ہیں۔ ناجائز تجاوزات، ایک دوسرے کے حق پر ڈاکے، لالچ طمع وغیرہ کیا خدا کے بندوں کاکام ہے؟‘‘
میں اٹھ آیا۔ مجھ سے میرزا کی بکواس برداشت نہیں ہوتی کیونکہ وہ سچ کہہ رہا ہے سچ شاید آپ سے بھی برداشت نہ ہو۔

تازہ ترین