• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کے فیصلے کے بعد کیا ’’ سسٹم ‘‘ کام کر رہا ہے ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے ، جس کا درست جواب حاصل کرنا اس وقت بہت ضروری ہے ۔ جب پاناما کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مسلسل یہ کہا گیا کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور جمہوری نظام کو ’’ ڈی ریل ‘‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) مخالف سیاسی جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ جمہوریت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ احتساب سے جمہوریت مضبوط ہو گی ۔ پاناما کیس کا فیصلہ آ گیا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو عدالت نے نااہل قرار دے کر برطرف کر دیا ہے ۔ نئے وزیر اعظم کا انتخاب بھی ہو چکا ہے ۔ جمہوری حکومت نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا ہے ۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ’’ سسٹم ‘‘ کام کر رہا ہے ؟
یہاں ’’ سسٹم ‘‘ سے مراد ’’ اداروں کے آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنے سے ہے ۔ ‘‘ موجودہ صور ت حال کی وضاحت سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے زیادہ بہتر انداز میں کی ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ سب سے زیادہ کمزور ترین ادارہ ہے ۔ جس کا دل چاہتا ہے ، پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑتا ہے ۔ جمہوری قوتوں نے آئین کے آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کا خاتمہ کیا تو پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا ایک اور طریقہ سامنے آ گیا ہے ۔ میاں رضا ربانی نے اداروں کے مابین کشمکش کی خطرناک صورت حال کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ ایگزیکٹو عدلیہ اور پارلیمنٹ پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے اور عدلیہ ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ پر حاوی ہونے کے لیے کوشاں ہے ۔ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کر رہے ہیں اور آئین ڈگمگا رہا ہے ۔ بعض حلقے میاں رضا ربانی کے نقطہ نظر سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس وقت جو صورت حال ہے ، اس میں اداروں کے مابین جاری کشمکش کو نظرانداز کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہو گا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاناما کیس کا فیصلہ ان کی فتح ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کی باری ہے ۔ عمران خان کے یہ بیانات عدلیہ کی غیر جانبداری کے لیے سوالات پیدا کر رہے ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاناما کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں کرانے کا فیصلہ عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کا نتیجہ ہے ۔ اس کیس کی بنیاد سیاسی ہے ۔ پھر کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور ان کے اتحادیوں کی سیاسی تحریک جاری رہی اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی جارحانہ مہم چلائی گئی ۔ سوشل میڈیا پر انتہائی منظم طریقے سے اور پیشہ ور ٹیموں کے ذریعہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے جو مہم چلائی گئی ، اس میں تمام اخلاقی حدود کو پارکر دیا گیا اور دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ اخلاقیات اور قدریں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں ۔ مخالف کو کسی بھی ہتھکنڈے سے غلط ثابت ہونا چاہئے ۔ سیاسی سرگرمیوں اور میڈیا مہم کے ذریعہ کیس کی سماعت کے دوران دباؤ جاری رہا ۔ شریف خاندان کے بارے میں جو تاثر قائم کیا گیا ، اس تاثر کا مستحق صرف شریف خاندان نہیں بلکہ دیگر خاندان اور افراد بھی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ تاثر حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ۔ پاناما کیس میں عدلیہ کا فیصلہ اگرچہ اس دباؤ کا نتیجہ نہ بھی ہو ، تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ’’ مقبول فیصلہ ‘‘ ہے ۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ تاریخ میں مقبول فیصلے ہمیشہ مقبول نہیں رہتے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا عدالتی فیصلہ اس وقت شاید بہت حد تک مقبول فیصلہ تھا لیکن آج اس فیصلے کے بارے میں لوگوں کی رائے قطعی برعکس ہے اور آج یہ کہتے ہوئے کوئی شخص ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ انصاف اور قانون کے مطابق نہیں بلکہ کچھ قوتوں کی ہدایت کے مطابق تھا ۔
سینئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کے موقف اور نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی حقیقت پر مبنی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ نے جنہیں ’’ گاڈ فادر ‘‘ اور ’’ سسلین مافیا ‘‘ قرار دیا ، ان سویلین گاڈ فادرز اور سسلین مافیا کے لوگوں نے عدالت کا فیصلہ قبول کر لیا ہے لیکن سابق فوجی حکمران اس مرحلے پر دھڑلے سے یہ باور کرا رہے ہیں کہ پاکستان کو آمرو ں نے ٹھیک کیا اور جمہوری حکمرانوں نے تباہ کیا ۔ ان کے خلاف بغاوت سمیت کئی سنگین مقدمات عدالتوں میں زیر التواہیں اور ان مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ایک ناقابل تفہیم تاخیر ہو رہی ہے ۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ سسٹم کام نہیں کر رہا ہے ، جس میں آئین و قانون کی بالادستی ہوتی ہے اور جمہوریت کے لیے کوئی خطرات نہیں ہوتے ہیں ۔ پاناما کیس کے فیصلے کا کریڈٹ خود لے کر عمران خان اداروں کے بارے میں ایسا تاثر پیدا کر رہے ہیں ، جس کی وضاحت دیانت دارانہ انداز میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کی ہے ۔ مزید واضح انداز میں عاصمہ جہانگیر نے کہہ دیا ہے کہ آج کل اسٹیبلشمنٹ اور ادارے خود نہیں بلکہ میڈیا اور سیاست دانوں کے ذریعہ بولتے ہیں ۔
کرپشن کے خاتمے اور احتساب کی کبھی کسی نے مخالفت نہیں کی لیکن احتساب کا نظام عدالتوں کے از خود نوٹس ، دھرنے کے ذریعہ مقدمات چلوانے یا مخصوص مقدمات کے فیصلے سے قائم نہیں ہو گا ۔ احتساب کا نظام پارلیمنٹ اور دیگر منتخب ایوانوں کے ذریعہ آئینی اور سویلین ادارے بنا کر قائم کیا جا سکتا ہے اور پاکستان میں احتساب کا نظام اس لیے قائم نہیں ہو سکا ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد احتساب کے نام پر سیاست کا خاتمہ کیا گیا اور بدعنوانی کو پروان چڑھایا گیا ۔ یہ پاکستان کے احتساب کے نظام میں جینیاتی خرابی ( Genetic Fault ) ہے ۔ اس کی وجہ سے آج بھی احتساب کے نام پر ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ پارلیمنٹ نے انہیں ووٹ دیا ہے ۔
انہیں پارلیمنٹ کی اکثریت کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کی قیادت کا اعتماد بھی حاصل ہے ۔ وہ بھی بظاہر اپنے پیش رو اور قائد میاں محمد نوازشریف کی طرح طاقتور وزیر اعظم ہیں یا انہیں نواز شریف کی طاقت حاصل ہے لیکن وہ ایوان میں اپنے والد خاقان عباسی کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں بات نہیں کر سکتے ۔ پاناما کیس ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔ یہ کیس ابھی تک جاری ہے ۔ قومی احتساب بیورو میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف جو ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں ، ان کی نگرانی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کریں گے ، جو پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ جمہوریت پٹری سے نہیں اتری ہے لیکن مستقبل قریب میں جو کچھ ہونے والا ہے اور جس کا تذکرہ اس وقت مناسب نہیں ہو گا ، وہ ثابت کرے گا کہ سسٹم کام نہیں کر رہا ہے ۔

تازہ ترین