• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض حلقے کہتے ہیںپاکستان میں قیادت کا بحران پید ا کیاجارہاہے۔ سچ بھی یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک کوشش یہ پیہم دراز ہے کہ کوئی اجلِ علم و فن، کردار و دستار پردئہ اسٹیج پر زیادہ ناں آں ٹھہرے۔ باچا خان، مولانا مودودی، جی ایم سید، حسین شہید سہروردی سے نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا بھاشانی، خیر بخش مری،خان عبدالو لی خان، شیخ مجیب الرحمٰن، حضرت مفتی محمود، علامہ شاہ احمد نورانی، عطاء اللہ مینگل، اصغر خان،غوث بخش بزنجو، ذوالفقار علی بھٹو سمیت متعدد گوہر ِ نایاب اور محمد خان جونیجو (جی ہاں محمد خان جونیجو) بی بی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف! ایک طویل فہرست … لیکن مطلق العنان، غلام محمد ، میجر جنرل اسکندر مرزا ،ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے ان سیاستدانوں کے ساتھ کیا کیا۔ بقول شاعر...
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھا نہ سکوں
ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ہندوستان میں ایسا کیوں نہیں ہوا، کیوں نہیں ہوتا! آخر سربستہ راز ہے کیا! آج ملکی سیاست نامے پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو نظریں کیوں مایوس لوٹتی ہیں ، کیا وطن عزیز میں ایسی قیادت جو ملک و ملت کے شایانِ شان ہو ناپید ہوچکی ہے۔ مسلسل سیاسی عمل ہی وہ بے مثل تربیت گاہ ہے، جس میں قیادت کی نشو و نما ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسی تربیت گاہ پر ایسے پہرے ہوتے ہیں کہ اِدھر کسی نے ذرا اُدھر کشادہ نظریں دوڑائیں، فوری سدباب کا انتظام حاضر پایا، گویا
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیانے کے
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
میاں نواز شریف، جناب آصف زرداری اور عمران خان صاحب… یہ ہے قومی قیادت!! الطاف حسین، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی خان، سراج الحق، محمود اچکزئی، مولانا انس نورانی، سردار اختر مینگل، حاصل بزنجو بھی قومی رہنما ہیں۔ لیکن یہ حقیقت برسرِ عام ہے کہ پارلیمانی سیاست میں عددی اعتبارسے یہ خود کو ملکی سطح پر منوا نہیں سکے ہیں ۔ سرِدست ہم جناب آصف زرداری کی شانِ بالا کو بالا بالا ہی چھوڑتے ہوئے وقت کے دو حریفوں کاتقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ عمران خان صاحب کا نامِ اعلیٰ نمودار ہوتے ہی مختلف المزاج لوگ مختلف کیفیات سے سرشار یا دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب اس وقت مقبولیت کی اُوجِ ثریا پر ہیں۔ لیکن ہم بات مقبولیت کے تناظر میں قومی قیادت کے بارِ گراں اُٹھانے کی بھی کر رہے ہیں۔ سیاست میں نیا رنگ و آہنگ متعارف کرانا معیوب نہیں۔ لیکن خان صاحب نے جو اطوار اپنائے اور سیاست کو جس طرح رنگین بنایا، ملک کے سنجیدہ طبقے نے اسے معیوب جانا ہے۔ خان کے جلسوں میں موسیقی کا شور و آہنگ اگر ملک کی غالب اکثریت کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے،تو دوسری طرف یہ سیاست میں ایک ایسی بدعت کا باعث بنا ہے جسے اب سیاست کا اصل سمجھا جانے لگا۔ تحریک آزادی اور ازاں بعد قیام پاکستان کے بعدجب جلسے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا ہوتا تھا، انقلابی نظمیں و گیت سنائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی مقرر کو داد دینے کی خاطر بار بار ایسی میوزک براہ راست عوام تک پہنچائی جائے جو ہیجان انگیز ہو۔ یہ امر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ قومی رہنما کی تقریر چونکہ جذبوں کو مہمیز دینے کے قابل نہیں ہے لہٰذاموسیقی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جلسہ گاہ میں شریک ہر شخص کے ہاتھ میں پرچم دینے کا رواج بھی تحریک انصاف ہی کی اخترا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نوع کی سیاسی عیاشی پر خرچ ہونے والی رقم پاکستان جیسے غریب ملک میں کس قدر ناروا ہو سکتی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جلسے میں ایسا طرز تکلم ہوا کے دوش پر لانا کہ شائستگی منہ چھپاتی پھر ے ،جیسا کہ اوئے، ذلیل، گھٹیا، بے شرم…
اگلے روز تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے عمران خان صاحب کو دو نمبر پٹھان قرار دیا، قطع نظر اس کےکہ موصوف کتنے اور موصوفہ کتنے نمبر کی پٹھان ہیں، کہنا یہاں یہ ہے کہ خان صاحب نے سیاست میں جو کلچر متعارف کرایا ہے آثار یہ ہیں کہ وہ خود اب اس کا شکار ہونے والے ہیں ۔ جب خان صاحب اپنے حریف کو مولانا ڈیزل تک کہہ جاتے ہیں تو وہ کیونکر یہ توقع رکھتے ہیں کہ کوئی ان پرلگے داغ کو نظر انداز کرجائیگا … سوال سادہ سا ہے کہ عمران خان اس ’خو‘ کو خوبرو سمجھتے ہیں یا وہ ایک راہ بر کو جداگانہ و مثالی کردار کا حامل جانتے ہیں۔قوم کی بہت ساری بیماریوں کا سبب بننے والے اور خان محترم کو کوچہ سیاست میں لانے والے جنرل حمید گل تو اب اس جہاں میں نہیں رہے، ظاہرہے یہ فیـصلہ اب کپتان کو خود کرنا ہوگا۔
دوسری طرف اگر ہم مقابل یعنی میاں نواز شریف کی صرف ایک مثال سامنے لائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک قائد کا قومی مفاد کی خاطرکیسے کیسے ’قربان گاہوں‘ سے واسطہ پڑتا ہے۔ہم یمن،سعودی،ایران،قطر جیسے خطےکے سب سے بڑے تنازع کاذکر کررہے ہیں۔بلاشبہ اس حوالے سے پاکستان کی معتدل اور غیر جانبدار پالیسی میاں صاحب ہی کی سوچ کی مظہر ہے۔کہا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف چونکہ 39ممالک کی افواج کے سربراہ ہیں۔لامحالہ اُن کی خواہش ہوتی کہ میاں صاحب اُن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے۔لیکن میاں صاحب پالیسی کے مضمرات جانتے تھے کہ کسطرح اس سے’ پراکسی جنگ‘ کی نوبت آسکتی ہے ۔چنانچہ’ حقیقی‘ قومی سلامتی کو ترجیح دی گئی ۔ممکن ہے برادر ملک اس پر ناراض ہو، اورایسی ناراضی کی ظاہر ہےکہ بسااوقات قیمت بھی’ چکانی ‘ پڑتی ہے ۔ تکلیف دہ امر مگر یہ ہے کہ ہم نے میاں صاحب کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔
میاں صاحب کی برطرفی پر ان دنوں وطن عزیز میں یہ سوال گردش پزیر ہے کہ اگر نام نہاد احتساب کے نام پر اسطرح قومی قیادت کو ٹھکانے لگایا جاتا رہا توپھر ملک کی باگ ڈور آخر سنبھالے گا کون؟ ایسے میںیہ علامات تاہم نیک شگون ہیں کہ مسلم لیگ جیسی اسٹیٹس کوپسند جماعت استقامت کا مظاہرہ کررہی ہے۔جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے تو ان دنوں ایک جہاں کا کہنا یہ ہے کہ وہ سیاسی اُفق پر قومی قائد کے طور پر نمودار ہوا چاہتے ہیں۔یہ تاثرعام ہے کہ انہیں یہ مقام اسٹیبلشمنٹ کے گرم سیاسی آغوش سے باہر آکر تلاطم خیزموجوں سے نبردآزما ہونے پر نصیب ہوا چاہتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ یہ آزمائشیں ہی ہوتی ہیں جو کسی کے قد کو بڑھاتی یا گھٹا تی ہیں۔پیپلز پارٹی جیسی جمہوریت کی علمبردار جماعت کوبھی لگتاہے اب اقتدار کا کچھ زیادہ ہی’ چسکا‘لگ گیا ہے ، اس لئے وہ کاسہ لیسی میں تحریک انصاف کو بھی مات دینے کی فکر میں ہے۔اب جب میاں صاحب کہتے ہیں کہ وہ’ نظریاتی‘ہوگئے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستانی پابہ جولاں سیاست میں اب بڑے بڑے نظریاتی بھی ’رجوع‘کر رہے ہیں، تو کہا جاسکتاہے کہ میاں صاحب نے خو د کوتیار بھی کرلیا ہوگا۔ اگر ایسا ہے توجلد آشکارہ ہوجائے گا...ہرگاہ،آگاہ کہتے ہیں کہ معروضی صورتحال میں نظریاتی قائد کا بنیادی کام کیا ہوسکتا ہے ،جیسا کہ قابلِ فخر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔جیسا کہ حضرت غالب کا کہناہے ۔
عجز ونیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کواس کے آج حریفانہ کھینچئے...

تازہ ترین