• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سیاست کا مزاج کوئی زیادہ ہی گندا ہو گیا ہے اور لگتا یہی ہے کہ سیاستدانوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اس کو صاف کرنے کیلئے مزید گند اکرناچاہئے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے کبھی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے حوالے سے خیر کی خبر نہیں سنی گئی ایک دوسرے پر الزامات کے مقابلے پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے باہر ہر روز دیکھنے کو ملتے ۔ پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا انتخاب ہوچکا ، انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں یہ فرمایا کہ اِس کرسی کے اصل حقدار نواز شریف ہیں اور وہ واپس آئینگے ۔یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ وزارت عظمیٰ شریف فیملی سے باہر نہیں جا سکتی ۔ مستقل وزیراعظم شہباز شریف ہونگے ۔گورنر سندھ نے تو یہ بیان صادر فرما یا ہے کہ خاقان عباسی وزیراعظم نواز شریف کا کام کررہے ہیں اصل وزیراعظم تو نواز شریف ہیں ۔ معلو م نہیں کہ سیاستدان کب بردباری کا مظاہرہ کریں جو جی چاہتا ہے کہہ دیتے ہیں ،نہ ملکی مفاد عزیز ہے اور نہ ہی سلامتی ، جاوید ہاشمی ایک طرف لیکروں کو پیٹ رہے ہیں، دوسری طرف تحریک انصاف کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی اپنے لیڈر عمران خان پر بڑے سنگین الزامات لگارہی ہیں کہ وہ بدکردار ہیں اور میڈیا بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے ۔ ہل چل کے اس ماحول میں نوازشریف کی نااہلی سے خالی ہونیوالی لاہور کی قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 120پر ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے الیکشن کمیشن کے مطابق 12اگست تک کاغذات جمع جبکہ حتمی فہرست 26اگست کو آویزاں کی جائیگی اور پولنگ کیلئے 17 ستمبر 2017ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے اولاً پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اس سیٹ سے کھڑا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اگرچہ ابھی اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا جبکہ تحریک انصاف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو انکے مقابلے کیلئے کھڑا کیا ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں شہباز شریف الیکشن لڑتے ہیں تو کیا صورت ہوگی۔ نہیں لڑتے تو پھر کیا حالات ہونگے اور آئندہ عام انتخابات پر اس الیکشن کے کس طرح کے اثرات ہوتے ہیں ۔ ان سب نکات کا جائزہ لینے سے پہلے گزشتہ الیکشن کے نتائج اور اس حلقہ کی موجود ہ صورتحال کا ایک معروضی ساخاکہ سامنے رکھتے ہیں تاکہ عام آدمی کو بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔
گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقہ سے نواز شریف 91ہزار 6سو 66ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ، انکے مد مقابل تحریک انصاف کی رہنما اور ڈاکٹروں کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52ہزار 321ووٹ حاصل کئے جبکہ پیپلز پارٹی کے زبیر کاردار کی ضمانت ضبط ہوگئی ۔ 2013ء میں این اے 120میں کل ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 95 ہزار 2سو 37جبکہ ایک لاکھ 53ہزار 3سو 28 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے ۔ اُسوقت نواز شریف خود تو اس حلقے میں نہ آئے یہ حلقہ اُنکی بیٹی مریم نواز کے سپرد تھا ۔ جنہوں نے مایوس کارکنوں کو بڑے بڑے وعدوں اور نعروں سے قائل کیا اور نواز شریف جیتنے میں کامیاب ہوئے حالانکہ کار کن بہت خلاف تھے ۔ لیکن افسوس کہ الیکشن کے بعد بالکل نظر انداز کر دیا گیا گو صوبائی رکن اسمبلی ماجد ظہور اُنکی نہ صرف دلجوئی کرتے رہے بلکہ دلاسے دیتے رہے کہ اس حلقے کے مسائل حل ہونگے ، میاں نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے وہ خود تشریف لائیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپریل 2016ء کو جب پاناما کیس منظر عام پر آیا تو نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میں ملک بھر کے کئی شہروں کے طوفانی دورے کئے ، بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات اور فیتے کاٹے گئے مگر اپنے حلقے میں تشریف نہ لا سکے ۔راقم نے انہیں دنوں وزیراعظم کے اس حلقے کا تفصیلی دورہ کر کے 9مئی 2016ء کے ’’ ہم کلام‘‘ میں استدعا کی کہ اس حلقے کو بچانا ہے تو بھوک مٹائو ، کارکنوں کو نوکریاں دو، اُنکے گلی محلوں کے مسائل حل کرو مگر شاید وزیراعظم کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں تھا یا انہیں بڑا مان تھا کہ ساتھ والے حلقے میں اُنکا بھتیجا حمزہ شہبازہے وہ اس حلقے کا بھی خیال رکھے گا لیکن افسوس کہ وہ مسائل جو اُسوقت تھے آج بھی اُسی طرح موجود ہیں اور نواز شریف کو اُنکی نااہلی سے دو مہینے قبل حلقہ این اے 120کی بجائے 119کا دورہ کروا کر سب اچھا دکھایا گیا ۔
اس حلقے میں حکمران پارٹی ہی منتخب ہوتی رہی ہے مگر مسائل عرصہ چالیس سال سے اُسی طرح ہیں، آج تک پانی کے پائپ تبدیل نہیں ہوئے ، بارش کے پانی کا کوئی نکاس نہیں، حلقہ میں قبرستانوں کی سخت کمی ہے۔ سب سے زیادہ عطائی ڈاکٹر لاہور میں اسی حلقے میں پائے جاتے ہیں، پڑھے لکھے بیروز گار نوجونواں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔لاہور شہر میں بھینسیں رکھنے کی اجازت نہیں لیکن اس حلقے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ واحد ٹی بی اسپتال کی حالت دگر گوں ہے ، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے کیونکہ آبادی کے لحاظ سے سرکاری اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے۔ فلٹریشن پلانٹ لگانے کے وعدے ، وعدے ہی رہے ، یہ ساری صورتحال 28جولائی تک تھی لیکن الیکشن شیڈول سے دو روز پہلے پورے حلقے میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کیلئے ایک ارب 13کروڑ روپے کے خصوصی فنڈز کی منظوری دی گئی جبکہ ترقیاتی اسکیموں کو مکمل کرنے کیلئے25کروڑ روپے جاری بھی کر دیئے گئے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ نے ہنگامی بنیادوں پر پیچ ورک اور ا سٹریٹ لائٹس لگانے کا کام شروع کر دیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق واسا ، ایل ڈی اے ، محکمہ صحت ، تعلیم ، مواصلات و تعمیرات ، پبلک ہیلتھ و انجینئرنگ کو خصوصی فنڈز جاری کئے جارہے ہیں کیونکہ شہباز شریف جو عرصہ 9سال سے وزیراعلیٰ ہیں ضمنی الیکشن لڑنے جارہے ہیں اور پوری حکومتی مشینری متحرک اور درجہ چہارم کی نوکریوں کی بندر بانٹ بھی شروع ہوچکی ہے۔ ان حالات میں ضمنی الیکشن ہونے ہیں ۔ یہاں کی 23یونین کونسلز میں تمام چیئرمین ن لیگ کے ہیں جبکہ لارڈ میئر کا بھی تعلق اسی حلقہ سے ہے اور ہر کسی کو ٹاسک دے دیئے گئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق اسوقت ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 3لاکھ 21ہزار 568ہوچکی ہے۔ جن میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 79ہزار 464جبکہ خواتین ووٹرز ایک لاکھ 42ہزار 104شامل ہیں۔الیکشن کمیشن نے اس ضمنی الیکشن میں 100بائیو میٹرک سسٹم اور 150الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں استعمال کرنیکا اعلان کیا ہے ۔ اصل سوال اپنی جگہ ہے کیا یہ الیکشن صاف شفاف ہونگے کیونکہ اسکے اثرات عام انتخابات پر بہت گہرے پڑ ینگے ۔ جس سے ایک واضح ٹرینڈ سامنے آئیگا ، عام لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان حالات میں الیکشن شفاف نہیں ہونگے ، فوج کو نگرانی کرنی چاہئے ۔ پری پول دھاندلی شروع کر دی گئی ہے اسلئے الیکشن کمیشن اور حکومت پنجاب کیساتھ ساتھ پوری سرکاری مشینری کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ گو الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے کہ کوئی بھی عوامی نمائندہ وزیراعظم ، وزیراعلیٰ ، ا سپیکر ، وغیرہ نہ تو حلقے کا وزٹ کر سکتے ہیں نہ کوئی ترقیاتی فنڈز جاری کئے جا سکتے ہیں جبکہ اسوقت حکمراں جماعت کو ہر حال میں یہ سیٹ جیتنی ہے ، ابھی تک یہ جماعت کنفیوژن کا شکار ہے کہ اگر یہ سیٹ جیتنی ہے تو شہباز شریف کو الیکشن لڑنا چاہئے اور اگر الیکشن نہیں لڑتے تو سیٹ جیتنا مشکل ہے کیونکہ اس حلقے میں اگر فیئر الیکشن ہوئے تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں وہ تو 2013ء سے ہی حلقے میں موجود ہیں اور لوگوں سے رابطے میں ہیں پھر جن 26ہزار سے زائد ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے اُن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اور وہ سب عمران کی طرف ہیں ۔ دوسرا یہ کہ اس حلقے میں جو ددوٹ ن لیگ کو پڑتے تھے مگر انکے دور میں ممتاز قادری کی سزائے موت پر ووٹرز اپنے امیدوار خادم حسین رضوی کو لا رہے ہیں۔ لیکن اگر فیئر، فری اور دھاندلی سے پاک الیکشن نہیں ہونگے تو حکمرانوں اور الیکشن کمیشن کے گٹھ جوڑ کے پول ضرور کھل جائینگے ۔ اس کشیدہ ماحول میں ہونیوالے یہ ضمنی انتخابات کسی طرح عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوں گے!

تازہ ترین