• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھیک ہے، ٹھیک ہے میاں نواز شریف نااہل قرار دے دیئے گئے ہیں۔ لیکن اب ملکی حالات کچھ ایسے ہیں کہ میاں صاحب کو کچھ احتیاط کرنی چاہئے۔ احتیاط کا یہ نعرہ سب سے پہلے چوہدری نثار کی جانب سے لگا جنہوں نے اپنی پریس ٹاک میں بات کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ مزید براں انہوں نے یہ بھی فرمایا کی کچھ ایسے خطرات ہم کو لاحق ہیں کہ جن سے واقف کار اس ملک میں صرف پانچ لوگ ہیں۔ ان میں دو تو چوہدری نثار اور میاں صاحب ہو گئے مزید تین کی طرف انہوں نے اشارہ دے دیا۔ پریس ٹاک میں چوہدری صاحب نے یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر فیصلہ حق میں آ جائے تو شکر ادا کریں ، خوشیاں نہ منائیں ۔ اور اگر فیصلہ مخالف ہوا تو احتجاج نہ کریں خوش دلی سے حکم نامے کو قبول کریں۔ ابھی تک میاں صاحب چوہدری نثار کے مشورے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کو خوشدلی سے قبول کیا گیا۔عدالت عالیہ کے فیصلے کو تسلیم کیا گیا۔ اداروں کے احترام کے حق میں بیان بھی دے دیا۔ جمہوریت کی بقااور تسلسل کے لئے نئے وزیر اعظم کا نام بھی تجویز کر دیا۔ نئی کابینہ بھی بن گئی۔ صدر مملکت نے حلف بھی لے کیا۔ فیصلے کے خلاف کوئی دنگا فساد بھی نہیں ہوا۔ کوئی بڑے جلسے جلوس نہیں ہوئے۔ لاہور اور پنجاب کے کئی شہروں میں چھوٹے موٹے جلوس نکلے لیکن مقامی قائدین کی عدم موجودگی کی بنا پر کوئی زیادہ احتجاج نہیں ہوسکا۔ میاں صاحب ٹھنڈے ٹھنڈے کوہ مری کو سدھار گئے۔ٹی وی پر مظلومیت کی خبریں چلنے لگیں۔اس کے بعد ایک دن اعلان ہوا کہ میاں صاحب موٹر وے سے عازم لاہور ہوں گے۔کارکنوں کے لئے یہ بات اچنبھے کی تھی۔موٹر وے پر سب جانتے ہیں نہ تو کوئی جلسہ ہو سکتا ہے نہ حاضرین کی آمد کا کوئی امکان ہو سکتا ہے۔ نہ کسی جگہ کارکنوں کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے نہ مائیک لگ سکتے ہیں نہ ترانے بج سکتے ہیں نہ اسٹیج سج سکتا ہے اور نہ پروٹوکول کا انتظام ہو سکتا ہے۔بظاہر لگتا تھا کہ میاں صاحب نے چوہدری نثار کا مشورہ مان لیا ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ ملکی حالات ایسے ہیں۔ خطرات ہر طرف سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں۔ سرحدوں پر صورت حال کشیدہ ہے، دہشت گردوں کے خلاف ردالفساد نامی جنگ جاری ہے، اندرونی طور پر بھی بہت سے خطرات کا سامنا ہے ، غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، ڈالر کی قیمت کسی طور قابو میں ہی نہیں آ رہی، فرقہ واریت اس معاشرے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی ، بارشوں سے ملک میں سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب بین الاقوامی طور پر بھی ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اٖفغانستان سے انخلاہو نہیں پا رہا۔ ڈو مور کا نعرہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ادھر افغانستان اب بھارت کی بھیگی بلی بن چکا ہے۔ ایران سے تنازعات چل رہے ہیں۔ دوست دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ اپنے عروج پر ہے۔بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اس کی چیرہ دستیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سرحدوں پر جھڑپوں کی خبر روز مرہ کا معمول ہو گئی ہے۔ہمیں اس دشمن کے خطرنا ک ارادوں کو بھانپ لینا چاہئے اور اپنی تیاری مکمل رکھنی چاہئے۔سی پیک اپنے کٹھن مراحل سے گزر رہا ہے۔ترقی کا پہیہ ہماری دہلیز تک پہنچ چکا ہے۔ اب بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا اندرونی خلفشار اس عظیم منصوبے کے تسلسل کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ان سب وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
عمران خان بھی ایک طرح سے یہی مشورہ دے رہے ہیں گو کہ ان کا انداز اور طریقہ مختلف ہے۔ ان کے بقول اگر احتجاج کیا گیا تو یہ اداروں سے ٹکراو کے مترادف ہوگا۔ عدلیہ کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرنے کے برابر ہے۔ ملک اس وقت اسی اندرونی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کے بقول خطا کاروں کو اب انکی خطا کی سزا مل چکی ہے اب انہیں شرمسار ہونا چاہئے۔چپ کر کے بیٹھ جانا چاہئے۔ خان صاحب نے مختلف پریس کانفرنسز میں بارہا اس خوف کا ا ظہار کیا ہے بڑے پیمانے پر احتجاج ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ میا ں صاحب کرسی کے لالچ میں ریاست کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔خان صاحب کا خوف کچھ سیاسی نوعیت کا بھی ہے کہ فرض کریں اگر میاں صاحب لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ سیاسی طور پر عمران خان کی بھد اڑانے کے مترادف ہو گا ۔ اس لئے کہ دھرنے سے آج تک خان صاحب مطلوبہ تعداد میں کارکن جمع کرنے سے قاصر رہے ہیں جن لوگوں کو دو ہزار گیارہ کے مینار پاکستان والے جلسے سے عمران خان سے بہت سی امیدیں بندھی تھیں وہ امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔اب تو ضمنی انتخابات کے نتائج بھی خان صاحب کی گفتار کا ساتھ نہیں دیتے ۔یوم تشکر پر جس کاوش سے پورے پاکستان کے لوگوں کو جمع کیا گیا، اندھیرے میں جلسہ کیا گیا، آخر ی جانب تیز روشنیاں جلا دی گئیں تاکہ کارکنوں کی کمی کا اندازہ نہ ہو سکے۔ ان سب باتوں سے اب مقتدر لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ عمران خان میں لوگوں کو گھروں سے نکالنے کی طاقت اب نہیں رہی۔
دوسری جانب میا ں صاحب نے جانے کس کے مشورے پر موٹر وے کا پلان منسوخ کر کے جی ٹی روڈ سے روانگی کاا علان کر دیا ہے۔ اب جگہ جگہ رک کر جلسے کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ مقامی قائدین کارکنوں کو ہر جگہ روک کر ڈھول بجائیں گے، نعرے لگائیں گے ، تقریریں ہوں گی، ورکرزنااہلی پر احتجاج کریں گے۔میاں نواز شریف کو احتیاط کرنی چاہئے ۔ ملکی حالات اچھے نہیں اور اس کی طرف کئی جانب سے توجہ دلائی جا چکی ہے۔
اس احوال کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ صرف نااہل یا بر طرف جمہوری حکمرانوںکو احتیاط کا پیغام دیا جاتا ہے ، صرف انکو ہی ملکی اور بین الاقوامی حالات سے ڈرایا جاتا ہے۔ ان پر ہی سمجھداری کا ثبوت دینے کی ذمہ داری تھونپی جا تی ہے۔ اس ملک کے حالات اندرونی اور بیرونی طور پر ایسے ہی تھے ۔ جب اس ملک میں پاناما کرپشن کے حوالے سے ایک متنازع جے آئی ٹی بنی تھی۔ جب متنازع وٹس ایپ کالیں کی گئی تھیں۔ جب روز پیشیاں ہوتی تھیں۔ جب اربوں کی کرپشن کے نعرے لگتے تھے اور اقامے پر آکر بات ختم ہوئی تھی۔ اس ملک کے حالات تب بھی یہی تھے جب جنرل مشرف اعلان کرتے تھے کہ راحیل شریف کی مدد سے انکو اس دھرتی سے رہائی نصیب ہوئی تھی۔ اس ملک کے حالات تب بھی یہی تھے جب ایک سابق ڈکٹیٹر سویلین حکومتوں کی ہرزہ سرائی کر رہے تھے اور مارشل لا کی توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ اس ملک کے حالات تب بھی یہی تھے جب بنا ثبوت اور سمن کے کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیر اعظم کو فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت احتیاط کا مشورہ کسی نے نہیں دیا۔ کسی نے ملکی حالات کی طرف توجہ نہیں دلائی۔ اس لئے کہ اس وقت جے آئی ٹی ممبران کرپشن کے خلاف نادیدہ جہاد میں مصروف تھے۔یہ احتیاط کا تقاضا صرف غیر جمہوری طریقوں سے مسترد کردہ جمہوری حکمرانوں کے لئے ہے۔اب جی ٹی روڈ پر عوام کی طاقت سے خوفزدہ لوگ عقلیں سکھا رہے ہیں۔ امر یکہ، افغانستان ۔ دہشت گردی، مہنگائی ، سی پیک اور سیلاب سے ڈرا رہے ہیں ۔ نوشتہ دیوار پر تحریر اپنی غلطیوں کو احتیاط کے پیغامات سے مٹارہے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کے ووٹ سے منتخب لوگوں کو سیاست سکھا رہے ہیں۔

تازہ ترین