• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بدری کی ٹھوکر نے نظریاتی بنا دیا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، جانتا ہوں، بہت کچھ سمجھ میں بھی آرہا ہے لیکن فی الحال خاموش رہنا چاہتا ہوں، کوئی کرپشن کی، نہ ثابت ہوئی، بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر اعتراض بناکر نااہل کیا گیا، منتخب وزیراعظم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟ پورا پاکستان پوچھتا ہے دو مرتبہ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کو سزا دینے والی عدالت اب تک نہیں بنی؟ نیب میں کیسز تو بدعنوانی کے چلتے ہیں یہ پہلا کیس ہوگا جو ہمارے باپ کی محنت سےبنائی ہوئی کمپنیوں کی تحقیقات کرے گا.....! جذباتی مگر تحمل مزاج سابق وزیراعظم محمد نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد پہلی مرتبہ ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں کےایک وفد سے محو گفتگو تھے، راقم نےمحفل میں موجودگی کے دوران منظر محسوس بھی کیا اور محفوظ بھی، سوچا بند کمرے کا احوال آپ کو بھی سنائوں۔ نوازشریف پرسکون اور ہشاش بشاش تو تھے لیکن شاکی اور مضطرب بھی، بات کہنا، سننا اور جاننا بھی چاہتے تھے لیکن رازوں کو چھپانا بھی، ایک موقع پر ہمارے سینئر ترین ساتھی امتیاز عالم کے روایتی پرزور اور غضبناک سوالاتی لہجے نے محفل میں سکوت طاری کردیا، نوازشریف محو اور مبہوت تھے، امتیاز عالم روانی میں کہے جا رہے تھے، میاں صاحب معصوم اور مظلوم نہ بنیں، ظلم تو آپ نے عوام سے کیا جو آپ کو منتخب کرکے وزیراعظم بناتے ہیں اور آپ سب کچھ چھوڑ کر گھر چلےجاتے ہیں، آپ گھوگھو گھوڑے نہ بنیں، کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے آپ کو اچھی طرح معلوم ہے، اب تو وزارت عظمیٰٓ، اسمبلی رکنیت اور پارٹی قیادت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب کس وقت کا انتظار ہے؟ کیوں یہاں سب کچھ نہیں بتاتے؟ کون کررہا ہے، کیوں کر رہا ہے اب آپ کو کیا کرنا ہے کیوں عوام کے سامنے نہیں لاتے؟ میاں صاحب پر ان کے تجرباتی و تجزیاتی انداز بیان کا اثرکم ہی ہوا لیکن اتنا ضرور جواب دیا کہ وہ انتشار نہیں چاہتے، جتنا مناسب ہے اتنی بات کر رہے ہیں، قانون و عوام کی حکمرانی اورصرف جمہوریت پر یقین رکھتےہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل کیا، ذات کی بجائے ملکی مفاد پر کبھی کمپرومائز کیا نہ گالی دینے والے کو اس زبان میں جواب دیا، اب عوام سے بات کروں گا....! ملاقات کےدوران اپنے تجربات کی روشنی میں کئی صحافیوں نےسابق وزیراعظم کو ’’قیمتی‘‘ مشورے اور مشکلات سے بچنے کے ’’ٹوٹکے‘‘ بھی بتائے، وہاں زیرک و مشاق صحافی رانا جواد نے ایک اہم نکتے کی واضح نشاندہی کی کہ ’’منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ نہ دینے کے عزم مصمم نے آپ کو جمہوری اقدار اور عوامی امانت کا امین بنا دیا ہے وہیں اس امر کا بھی تعین کر دیا ہے کہ اب قدم پھونک کر رکھنا ہی دانشمندی اورحقیقی جمہوریت کی پاسداری و بقا کا ضامن ہوگا۔‘‘ ملاقات میں میاں صاحب کا پراعتماد لہجہ اور مجتمع باڈی لینگویج میرے لئےحیران کن نہ تھی، لیکن سوچ رہا تھا کہ جو بات آپ بند کمرے میں کہنے سے ہچکچا رہے تھے کیا وہ بھرے مجمع میں جوشیلے کارکنوں اورعوام کے سامنے کہہ پائیں گے؟ کیا آپ جی ٹی روڈ پر عوام کو اپنا رازدان بنائیں گے؟ کیا ذہن و دل میں چھپا کڑوا سچ زبان خلق سےآشکار کریں گے؟
اپوزیشن فیصلہ آپ کےخلاف آنے پر بغلیں بجا رہی ہے لیکن تلوار ان کےسروں پر بھی بدستور لٹک رہی ہے، قریب ہے کہ فیصلہ ہی آجائے، تاہم ایکشن اور سسپنس سے بھرپور سیاسی کہانی کا ایک اہم پہلو واضح ہوگیاہے کہ ’’ن لیگ‘‘ نوازشریف ہی ہے، ان کا بھائی یا کوئی بدل نہیں ہوسکتا جبکہ حقیقی جمہوری اور عوامی حمایت ’’ہتھیانے‘‘ کا فیصلہ کن سنہری موقع بھی آپکے ہاتھ آگیا ہے، جس کو کہتے ہیں "Blessing in disguise"
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے خود کو حساب و احتساب کے لئے پیش اور فیصلہ پر سرتسلیم خم کرکے نئی روایت تو قائم کردی، اب ’’سب کے‘‘ بےلاگ و غیرجانبدارانہ احتساب کے لئے قومی و ریاستی اداروں کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال کر سیاسی بساط کو نئی زندگی عطا بھی کردیں۔ آپ کی چار سال بعد چارٹر آف ڈیموکریسی پر ہنوز قائم رہنے اور آگے بڑھنے کی باتیں دل کی تسلی کے لئے خوش کن ضرور ہیں لیکن ذرا ذہن پر زور دیں کہ آپ نے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنوں کا طوق گلے میں لٹکانے والی پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا کچھ کیا؟ اس کی ایک بڑی مثال ’’مشاورت‘‘ سے اینٹ بجانے کے اعلان کے بعد طے شدہ ملاقات کی منسوخی بھی ہے؟ اپنے حلیفوں، مشکل وقت کے ساتھیوں اور پارٹی وفاداروں سے روا رکھا گیا سلوک بھی آپ کو یقیناً یاد ہوگا؟ دیکھا جائے تو پچھلے پانچ سالہ جمہوری دور کا وقت پورا کرنے کے لالے پڑے تھے، تمام تر مشکلات، رکاوٹوں، بدترین تنقید اور طعنوں کے باوجود آپ کا منہ بولا چھوٹا بھائی سیاسی مصلحت اور مفاہمت کا راستہ اپنانے پر اس قدر مجبور ہوا کہ اس شخص کو نائب وزیراعظم بنایا جس کے والد نے بھٹو کی پھانسی کا حکم نامہ تحریر کرنے والے قلم کے جسٹس مولوی مشتاق سےحصول کو اپنی سیاسی کامیابی کا طرہ امتیاز بنایا تھا۔ اس کے باوجود عوام نےبیڈ گورننس اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام ووٹ سے لیا، آپ تو خوش نصیب ہیں کہ عوامی جذبات ابھی آپ کے ساتھ ہیں، جمہوریت برقرار اور حکومت بدستور آپ کے پاس ہے، دو صوبوں اور پارلیمنٹ میں اکثریت و حمایت حاصل ہے، آپ آئندہ 10ماہ میں10 سال کا کام کرکے عوام کی زندگیوں کو سنہرے مستقبل میں بدل سکتےہیں، وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کے بعد عظیم الجثہ موٹروے منصوبے کے بعد سی پیک کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ڈکٹیٹروں کے پیچھے امریکہ سمیت کئی عالمی طاقتیں کھڑی ہوتی تھیں، آپ کے پاس تو کوئی مزار یا شہادت بھی نہیں لیکن آپ شہید یا غازی بننے کی بجائے معمارِ پاکستان بننے کا اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ ملک کے غریب پسے ہوئے اور متوسط طبقے کی معاشی آسودگی کے لئے کوئی معاشی دھماکہ کرسکتے ہیں۔ اس ملک سے توانائی کے بحران کو ختم کرکے گھر گھر کو روشن و صنعت کو درخشاں کرسکتے ہیں، امن و استحکام، روزگار، تعلیم اور صحت سمیت خوشحال زندگیوں کا حقیقی تصور و خواب شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں۔ جناب چیلنجز بہت ہیں وقت بہت قلیل ہے، آپ کے پاس مزید غلطیوں کی گنجائش بھی نہیں، آپ کو حالات کا ادراک بھی ہے اور آئندہ کا اندازہ بھی، اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ اپنی توانائیوں کو اپنے حریفوں اور سوچ کے ’’مخالفین‘‘ سے لڑنے پر خرچ کرنا ہے یا ملک کو حقیقی جمہوری اور ترقی کی ڈگر پر ڈالنے کے لئے، آپ عوام کی مدد سے اپنی سیاسی و جمہوری لڑائی ضرور لڑیں تاہم آپ نے یہ بھی سوچنا اور سمجھنا ہےکہ جس راستے سے گزر کر آئے ہیں اسی پر واپس جانا ہے یا منزل کے قریب پہنچ کرقافلہ لوٹانا ہے۔
سیانے کہتے ہیں لڑائی کوئی بھی ہو ہر صورت اپنا نقصان ضرور ہوتا ہے، لڑائی چاہے طاقتور سے ہو، اپنے جیسے، یا اپنے سے کمزور سے، لڑائی کے نتیجے میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے، ایسے حالات میں جب سیاست بدترین پراگندگی کا شکار ہوچکی، معاملہ احتجاجی سیاست سے زیادہ ذاتی نوعیت کے دقیق اور غلیظ الزامات کی نذر ہوچکا ہے، کیا ملک کسی نئے سیاسی مفاہمتی بیانیے یا آرڈرکا تقاضا نہیں کر رہا؟ آپ کی سیاسی خواہش کے تحت عام انتخابات سےسال قبل ہی جی ٹی روڈ سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز، ’’طاقتوروں‘‘ کےہاں سرخ نشان کےحامل ناموں کااہم عہدوں پر تقرر، جوڈیشری و اسٹیبلشمنٹ پر مبہم جملےبازی آپ کے عزائم اور پیغام کو بلاشبہ واضح تو کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی تقاضا کر رہی ہے کہ آپ واضح طور پر بتائیں آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ کیوں کیا؟ کس نے کیا؟ اب آپ کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی؟ سیاسی نقادوں کی نظر میں یہ بات بھی واضح ہے کہ ملک کسی مزید احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا بغیر کسی عہدے کے آپ سیاسی و جمہوری نظام کی کامیابی کی سمت کے تعین کے لئے قومی رہنما بن سکتے ہیں اور ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ بدلہ زدہ نہیں بلکہ بدلا ہوا نوازشریف ہے، شاید اسی میں ملک، جمہوری نظام اور آپ کی اپنی پارٹی کی بھی بقا ہے! یعنی"Some thing has to be done".

تازہ ترین