• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمی سیول برطانیہ کا ایک چمکتا ہوا شوبز اسٹار تھا، وہ برطانیہ کے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سے منسلک تھا اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اُس کے مداح تھے۔ جمی کو فلاحی کاموں کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں سراہا جاتا تھا اور وہ کئی فلاحی اداروں سے بھی منسلک تھا جن کیلئے اُس نے اپنے ٹی وی شوز کے ذریعے 40ملین ڈالرز کا چندہ اکٹھا کیا۔ جمی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ملکہ برطانیہ اور برطانوی وزیراعظم بھی اُس کے دوستوں میں شامل تھے جبکہ اُسے ملکہ برطانیہ کی جانب سے ’’سر‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ 2011ء میں 84 سال کی عمر میں انتقال کرگیا، جمی کے مرنے پر دنیا بھر میں اُس کے مداح سوگوار تھے مگر شاید کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی تعاقب نہیں چھوڑتے۔ جمی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جمی سیول کی موت کے ایک سال بعد 2012ء میں ایک برطانوی ٹی وی چینل نے جمی کی زندگی پر ایک تحقیقاتی ڈاکیومنٹری نشر کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ ہر دلعزیز ٹی وی اسٹار جمی سیول دراصل نوجوان لڑکیوں کی عزت سے کھیلنے والا عادی مجرم تھا جس نے اپنے چمکتے چہرے کی آڑ میں سینکڑوں زندگیاں خراب کیں۔ اس تہلکہ خیز ڈاکیومنٹری کے بعد گویا برطانیہ سمیت یورپ بھر میں بھونچال آگیا اور جمی کے کروڑوں مداح ششدر رہ گئے۔ ڈاکیومنٹری میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیوں کے اعترافی بیانات بھی شامل تھے اور جب ڈاکیومنٹری منظرعام پر آنے کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تحقیقات کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے جمی سیول کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی 500 سے زائد خواتین سامنے آگئیں جن میں سے کچھ خواتین کا تعلق اُس نفسیاتی اسپتال سے بھی تھا جس سے جمی منسلک تھا اور متاثرہ خواتین اسپتال میں زیر علاج تھیں۔ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ جمی کی زندگی میں کچھ خواتین نے جمی کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی شکایتیں کی تھیں مگر اتنے بڑے شوبز اسٹار کے سامنے کسی عام لڑکی کی بات پر یقین نہیں کیا گیا جس سے جمی کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور وہ نوجوان لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلتا رہا۔ جمی کے بارے میں انکشافات سامنے آنے کے بعد عوامی دبائو میں آکر بی بی سی کو معافی مانگنا پڑی اور ادارے کے سربراہ کو مستعفی ہونا پڑا۔ بعد ازاں جرم ثابت ہونے پر جمی کو اُس کی زندگی میں دیئے گئے خطابات اور اعزازات واپس لے لئے گئے جبکہ اُس کی قبر پر ’’سر‘‘ کے نام سے لگایا گیا کتبہ بھی ہٹادیا گیا۔
دنیا میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جس میں مشہور شخصیات نے اپنی شہرت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں خواتین کو جنسی زیادتی اور ہوس کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین اُن مشہور شخصیات کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور زبان بند رکھنے کو ترجیح دی جس سے ان شخصیات کی حوصلہ افزائی ہوئی لیکن اگر کسی خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھانے کی ہمت بھی کی تو اُسے یہ کہہ کر چپ کرادیا گیا کہ وہ یہ سب کچھ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے کررہی ہےاور اس کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں مگر کچھ نڈر اور بہادر خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے کسی ڈر خوف کی پروا کئے بغیر اُن مشہور شخصیات کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا۔ کچھ اِسی طرح کی بہادری کا مظاہرہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی رکن اور تحریک انصاف کی سابقہ رہنما عائشہ گلالئی نے اُس وقت کیا جب انہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ عمران خان کے کردار پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان کو ایک بدکردار شخص قرار دیتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ عمران خان اور اُن کے ارد گرد موجود لوگوں کے ہاتھوں عزت دار خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔ عائشہ گلالئی کے بقول ’’عمران خان اُنہیں کئی سال سے موبائل فون پر بے ہودہ پیغامات بھیج کر جنسی طور پر ہراساں کررہے تھے اور تنہائی میں ملنے پر بضد تھے۔‘‘
عائشہ گلالئی کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پارٹی رہنمائوں نے عائشہ گلالئی پر الزام لگایا کہ وہ یہ سب کچھ کسی کے کہنے پر کررہی ہیں جس کیلئے انہوں نے ایک بڑی رقم وصول کی ہے۔ پارٹی قیادت پر سنگین الزامات کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے بھی عائشہ گلالئی کی کردار کشی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر عائشہ گلالئی اور اُن کی فیملی کو تضحیک آمیز اور شرمناک القابات سے نوازا گیا جبکہ اُن پر تیزاب پھینکنے اور گھر مسمار کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ایسی صورتحال میں عائشہ گلالئی کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو دبائو میں آکر ہمت ہار بیٹھتی مگر عائشہ گلالئی نے تضحیک آمیز رویئے اور تنقید کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور آج تک اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران پی ٹی آئی اراکین کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے باوجود عائشہ گلالئی نے اپنی تقریر جاری رکھی اور واضح کیا کہ وہ عزت اور غیرت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس ملک میں بہن بیٹیوں کی عزت محفوظ نہ ہو، اُس قوم کو کوئی زوال سے نہیں بچاسکتا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اُن کے پاس عمران خان پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت موجود ہیں جنہیں وہ وقت آنے پر سامنے لائیں گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد ملازمت پیشہ خواتین اپنے ادارے میں جنسی طور پر ہراساں کی جاتی ہیں جبکہ مبینہ طور پر سیاسی جماعتوں میں بھی پارٹی کی بعض خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کسی پارٹی کی خاتون نے کھل کر اس بات کا اقرار کیا ہو۔ عائشہ گلالئی کی ہمت و حوصلہ سراہے جانے کے قابل ہے جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھاکر کمزور خواتین کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اٹھ کھڑی ہوں جس کے بعد زیادتی کا شکار ہونے والی پاکستان کی دیگر خواتین بھی جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے سامنے آرہی ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جب کوئی خاتون کسی مرد پر اسی نوعیت کا کوئی الزام لگاتی ہے تو ہم اُسی خاتون کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور عورت کی کردار کشی پر اُتر آتے ہیں۔ عائشہ گلالئی کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ اتنے عرصے تک خاموش کیوں رہیں؟ اگر کسی عورت نے اتنے عرصے خاموشی اختیار کئے رکھی تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جھوٹی ہے۔ عائشہ گلالئی کے خلاف جتنا زہر اگلا جارہا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی عورت جب کسی مرد کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو اُسے کتنا ہراساں کیا جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رویئے سے اُن تمام عورتوں کی حوصلہ شکنی نہ کریں جو ممکن ہے کہ اس کیس سے ہمت پاکر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بے نقاب کرنے کا ارادہ باندھ رہی ہوں۔ کالم لکھنے کا مقصد عمران خان کو جمی سیول سے تشبیہ دینا نہیں اور نہ ہی اُن پر کوئی الزام لگانا ہے مگر عائشہ گلالئی کے الزامات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا جو سنگین نوعیت کے ہیں اور ایک پارلیمنٹرین نے لگائے ہیں جن کی تحقیقات ہونا چاہئیں۔ ایسے میں جب اس معاملے پر پارلیمنٹ میں تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا جس کا تحریک انصاف نے شروع میں خیر مقدم کیا مگر بعد میں عمران خان نے کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ عائشہ گلالئی کے لگائے گئے الزامات کو سنجیدگی سے لیں، اگر وزیراعظم کو محض تنخواہ نہ لینے پر آرٹیکل 62,63 کے تحت جواز بناکر گھر بھیجا جاسکتا ہے تو عائشہ گلالئی کے عمران خان پر لگائے گئے الزامات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں جس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں لہٰذا عمران خان، قومی اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے الزامات کا دفاع کریں تاکہ اصل حقائق کی تہہ تک پہنچاجاسکے۔
نوٹ:گزشتہ کالم ’’پانامہ سے اقامہ تک‘‘ میں 2006ء میں برطانوی وزیر داخلہ کا نام غلطی سے تھریسامے لکھا گیا جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ چارلس کلارک تھے۔

تازہ ترین