• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غوث بخش بزنجو کے بعد قومی دانش میں اضافہ نہیں ہوا؟

کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظرئیے کے خلاف زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آج کے دور میں چیزیں، جذبے، سوچیں اتنی گڈمڈ، الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہوگئی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مجھے میر غوث بخش بزنجو شدت سے یاد آرہے ہیں۔ اگست کا مہینہ غوث بخش بزنجو کی یاد دلاتا ہے۔ ہر سال گیارہ اگست کے دن میرا دھیان میر غوث بخش کی طرف جاتا ہے۔ اس نام کے ساتھ ہی زمین میں ایک طویل جدوجہد ابھرتی ہے، پہاڑوں ساحلی چٹانوں اور سبز زاروں کی سیاست کے رزمیہ نغموں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
آج اصل اور نقل میں امتیاز کرنا مشکل تر ہوگیا ہے اور آج پاکستان و پاکستانیوں کو اپنی بصارت اور بلاغت میں اضافے کی اشد ضرورت ہے، اتنے جھگڑے، اتنے ہیر پھیر اور اتنے دل چھل پڑگئے ہیں کہ سیاست ہو یا ادب، سماجیات ہو یا صحافت، آرٹ ہو یا ثقافت کہ جسے سب حالتوں کی حالت کہنا چاہئے بے یارو و مددگار اور مخدوش الصفات رہ گئی ہے ان حالات میں غوث بخش بزنجو کی یادیں دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ کہتے ہیں علم کے ساتھ تھوڑا سا عمل زیادہ نفع دیتا ہے جبکہ جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی منافع نہیں دیتا۔ 11؍اگست 1989ء کو جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرےذہن میں دھماکہ نہیں بلکہ دھماکے کے بعد جو سناٹا سا پیدا ہوجاتا ہے اس نے میری سوچ کو گھیر لیا۔ کتنا کرب تھا اس سناٹے میں جس نے ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا ہر سسکی اپنا مفہوم کھو چکی تھی اور ہر چیخ غیرضروری ہوگئی تھی۔ بزنجو صاحب کو کیا معلوم کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں ان کے لئے تو دکھ یا پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر ہم … میر غوث بخش بزنجو سے میری واقفیت کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے ہوا یہ واقفیت ذاتی نہ تھی بلکہ پارٹی کے حوالے سے تھی انہی دنوں وہ لاہور آئے تو پروفیسر امین مغل اور ملک شمیم اشرف نے میرا ان سے تعارف کرایا اس شناسائی نے مجھ پر ایسا انمٹ نقش چھوڑا جو پارٹی میں میرے تمام تر کام کے دوران محو نہ ہوسکا۔ ولی خان، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش اجمل خٹک… لیکن جب میں میر صاحب کی سادگی، سچائی، جمہوریت پسندی، انقلابی خیالات… اور سرگرمیوں سے واقف ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ بزنجو ایک غیرمعمولی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ میری نگاہ میں وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے محض راہنما ہی نہ تھے بلکہ اس کے حقیقی بانی بھی تھے اس لئے کہ وہی ہماری پارٹی کے عوامی نظریات ، پارٹی کی عوامی ماہیئت اور اس کے فوری تقاضوں سے واقف تھے، جب کبھی میں نے ان کا مقابلہ اپنی پارٹی کے دوسرے راہنمائوں سے کیا تو ہر بار دوسروں کے مقابلے میں بزنجو صاحب نے نہ صرف ایک راہنما بلک ایک اعلٰی درجہ کے راہنما گویا ایک شاہین تھے ۔ جنہیں پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ہو، جو پاکستان میں انقلاب کے ان دیکھے راستے پر پارٹی کی جرات مندانہ انداز میں راہنمائی کیا کرتے تھے۔ بزنجو صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور میں پارٹی کے دفتر میں ہوئی تھی میں اپنی پارٹی کے اس راہنما سے ملنے کا مشتاق تھا اس عظیم انسان سے جو نہ صرف سیاسی اعتبار سے عظیم تھا بلکہ خود کو ذہنی طور پر بھی ان کے بہت قریب پاتا تھا۔
ان دنوں بھی رجعت پسند یا دائیں بازو یا کچھ بھی کہہ لیجئے صحافی، نیشنل عوامی پارٹی کے تمام تر لیڈر شپ میں زیادہ تر بزنجو صاحب کی انقلابی سوچ کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ ان نام نہاد صحافیوں نے حکومت وقت سے مل کر بزنجو اور اس کی عوامی سیاست کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسا کہ روایتی طور پر ایک جن نے اپنے مہمانوں کے ساتھ روا رکھا تھا، وہ بظاہر بڑے خلوص و احترام سے اجنبی مسافروں کو اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دیتا پھر جو اس کی چارپائی سے چھوٹا ہوتا وہ بھی اس کے پیٹ کا ایندھن بن جاتا اور جس کا قد چارپائی سے بڑا ہوتا وہ بھی اس پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا یوں ہر کسی کو کھا جانا اس جن کی فطرت بن گئی تھی اور بہانہ یہ بنا رکھا تھا کہ آدمی یا تو چارپائی سے بڑا نکلا یا چھوٹا٠٠٠٠ یعنی چارپائی کو پیمانے کی حیثیت دے دی گئی تھی اور بدقسمتی سے نیشنل عوامی پارٹی اس چارپائی پر فٹ نہ بیٹھتی تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی میں، باچا خان، میاں افتخار الدین، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، خان عبدالصمد خان اچکزئی، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، عطاء اللہ مینگل، ولی خان، خیر بخش مری اور دوسرے بہت سے ترقی پسند اور انگریز (کالے اور سفید) استعمار کے خلاف سینہ سپر ہونے والے سیاستدان شامل تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی سے قبل باچا خان کی خدائی خدمت گار، جی ایم سید کی سندھی محاذ، میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی، حیدر بخش جتوئی کی ہاری کمیٹی، عبدالصمد اچکزئی کی اور غوث بخش بزنجو کی استھان گل، الگ الگ جماعتیں تھیں پھر سب لوگوں نے مل کر ایک پارٹی تشکیل دی جس کا نام پاکستان نیشنل پارٹی رکھا گیا، بعد میں مولانا بھاشانی کی شمولیت پر یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کہلائی، جس کا منشور غوث بخش بزنجو کی ذہنی عرق ریزی کا نتیجہ تھا کہ انہیں یقین کامل تھا کہ مصائب و آلام، دکھ درد و غم انسانی زندگی کے لئے ناگزیر نہیں ہے بلکہ ایسی مکروہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو قطعاً چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ بزنجو صاحب کے ساتھ کسی بھی مسئلہ پر متنازعہ بحث کی جاسکتی تھی اور ایسی بحثیں اکثر ہوتی تھیں نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور میرے گھر ایمسٹرڈم میں بھی، وہ یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا اور بڑی توجہ سے دوسروں کے خیالات سنتے تھے لیکن وہ ایسی کسی چیز کو، کسی بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے تھے جو بنیادی اور منطقی طور پر غلط ہو۔ اصول کے معاملے میں وہ کوئی رعایت نہ برتتے تھے۔ مجھے کل کی طرح آج بھی یاد ہے ایمسٹرڈم میں میرے گھر پر ایک بار فیض احمد فیض کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’اگر فیض جیسا شخص پیدا نہ ہوتا تو ہم انقلاب کے لئے اسے پیدا کرتے‘‘۔
بزنجو صاحب اپنے بیٹے بزن بزنجو کے ساتھ میرے گھر آئے ہوئے تھے ہم چند دوست رات گئے تک ان کی دلچسپ باتیں اور سیاسی تبصرے سنتے رہے۔ سفر کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، ’’مفتی! مجھے میرا کمرہ دکھائو ..... نیند آرہی ہے‘‘٠٠٠٠٠ میں انہیں ان کے کمرے میں لے گیا، ضرورت کی تمام چیزیں پہلے ہی سے کمرے میں رکھ دی گئی تھیں۔ پھر بھی احتیاطاً میں نے کہا ’’اب آپ آرام کیجئے۔ رات کے کسی حصے میں بھی کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو بلاتکلف مجھے آواز دے دیجئے گا‘‘۔ کہنے لگے۔ ’’نہیں! اب بس سوئوں گا اور صبح تک سوتا رہوں گا۔ بس تم یہ کرنا کہ سویرا ہوتو مجھے جگا دینا‘‘۔ میں ہولے سے قدم لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
بزنجو صاحب! ابھی آپ آرام سے سوئیے جب سویرا ہوگا تو میں یا میرے بچے ضرور آپ کو جگا دیں گے۔

تازہ ترین