• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ الفاظ ملک میں اس وقت بپا نارواہنگامہ ختم کرسکتے تھے ۔یہ سادہ سے عام فہم الفاظ ہر اُس شخص کو ذہنی کرب اورتنائو سے نجات دلاسکتے تھے جو عمران خان عائشہ گلالئی کیس کو کسی طور بھی دیکھ رہا ہے ۔ لیکن عمران خان نے ان الفاظ کو زبان سے ادا کرنے یا ٹویٹ کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ اس کی بجائے اُن کی پارٹی کی طرف سے ’’کلنٹن ‘‘ کی طرز پر جواب دیا جارہا ہے ، جیسا کہ مدعی پر کڑی تنقید کرنا، الزام کو بے بنیاد قرار دینااور جوابی طور پر گھٹیا الزامات اور رپورٹنگ کرنے والے کو بھی رگید کر رکھ دینا ، نیز یہ باور کرانا کہ مدعی اتنے گھٹیا کردار کامالک ہے کہ اُسے کسی تامل یا تاسف کے بغیر ایک گندے کیڑے کی طرح اٹھا کر نالی میں بہا دینا چاہیے ۔
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، عائشہ گلالئی کو قتل کرنے اور اُس کے آبائی گائوں میں گھر کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں( عائشہ کا کہنا ہے کہ یہ گھر وہ اسپتال ہے جو اُس کی بہن تعمیرکرارہی ہے ۔ اُس کی بہن ملک میں اسکواش کی نمبر ون کھلاڑی ہے)۔ عمران خان کی جماعت کے سوشل میڈیا کارکنوں کے درمیان ہیجان خیز بحث جاری ہے کہ کیوں نہ اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جائے ۔ پی ٹی آئی کے ترجمانوں، جن میں مرد بھی شامل ہیں اور خواتین بھی ، نے سنگین الفاظ میں عائشہ کی کردار کشی کی ہے ۔ پارٹی کے چیف ترجمان نے تو لذت بھرے انداز میں عائشہ کی اسکواش کھیلنے والی بہن کے لباس کا تذکرہ کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُن کا ’’لائف اسٹائل ‘‘ کیا ہے ۔
کافی تاخیر کے ساتھ عمران خان نے اپنے ہر قسم کے کارکنوں سے اپیل کی کہ تنقید کرتے ہوئے عائشہ کی بہن کا ذکر نہ کیا جائے ، حالانکہ سب سے پہلے اُس کا ذکر پی ٹی آئی کے سرکاری ترجمان نے ہی کیا تھا، اور اسے متعدد بار دہرایا تھا ۔ عمران کی اپنے کارکنوں سے اس درخواست میں عائشہ کا نام شامل نہ تھا، اس لئے اُن کے کارکنوں نے عائشہ کی کردار کشی اور اُس پر کیچڑ اچھالنے کی مہم جاری رکھی ۔یہ حملے آج بھی جاری ہیں،پارٹی کے کسی لیڈرنے اُنہیں روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس مہم کے متوازی ایک اور بیانیہ بھی ارزاں کیا گیا کہ اس سازش میں حکومت کا ہاتھ ہے ۔ عمران خان نے اپنے انٹرویوز اور ٹویٹ پیغامات میں کھل کر کہا کہ اس تمام اسکینڈل کے پیچھے پاکستان مسلم لیگ ہے ۔ اُنھوں نے اسے اپنے خلاف کی جانے والی انتقامی کارروائی قرار دیا ۔ اپنے کچھ من پسند اینکرز کو حالیہ دنوں انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوںنے الزام لگایا کہ Tyrian کی والدہ، سیٹا وائٹ مرحومہ کو اُن کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنے کے لئے بھی شریفوں نے پیسے دئیے تھے ۔
اب چاہے میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر ہو یا پارلیمنٹ کے ایوان میں، پی ٹی آئی کے حامی اسی سازش کے بیانیے پر یقین رکھتے ہوئے اسی کو پھیلا رہے ہیں کہ عائشہ گلالئی کے ذریعے عمران خان کو بدنام کیا جارہا ہے ۔ اُن کے لئے عائشہ گلالئی کردار کشی کے لئے استعمال کیا جانے والا ایک گھٹیا مہرہ ہے ۔ ابھی حال ہی میں اُن کی کردار کشی کرنے والے اُنہیں عمران خان اور پارٹی کی بہترین محافظ اور سیاست میں خواتین کے لئے ایک رول ماڈل قرار دے رہے تھے ۔الزام تراشی کی اس مہم میں کچھ ریٹائرڈ ماہرین نے اپنی دانائی کا حصہ ڈالتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ حکومت نے عائشہ گلالئی کو اس لئے میدان میں اتارا ہے کیونکہ وہ عمران کے بلیک بیری تک رسائی چاہتی ہے۔ کیوں؟ اس پر اُن کا کہنا ہے کہ حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کہیں عمران خان آئی ایس آئی یا جی ایچ کیو کے افسران کے ساتھ کسی سیاسی منصوبہ سازی میں تو شریک نہیں؟بہت دور کی کوڑی لائے ہیں یہ بقراط، لیکن اس زرخیز انداز ِ فکر کی داد دینا بنتی ہے۔
یہی ہوا تھا جب ریحام خان نے شرعی طریقہ اپناتے ہوئے طلاق لی۔ یک لخت اور ایک دم وہ ایک بہترین بھابھی اور مادر ملت سے ایک ایسی خاتون بن گئی جو برطانوی جاسوسی ادارو ں کے ساتھ کام کر رہی تھیں ۔ایک الزام یہ بھی لگا کہ وہ عمران خان کو زہر دینا چاہتی تھیں۔دوسرا یہ تھا کہ عمران خان کے بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو پلانٹ کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ جو کردار کشی ہوئی وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ فوزیہ قصوری نے جب پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تب بھی الزامات کی نوعیت وہی تھی جو آج عائشہ گلالئی پر لگائے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ وضاحت میں کہا گیا کہ محترمہ نے این اے 48 کا ٹکٹ حاصل نہ ہونے کی بنیاد پر یہ سارا کام کیا۔اور یہ بھی کہا گیا کہ ان کے رابطے شریف خاندان کی خواتین کے ساتھ ثابت ہوگئے۔ صرف ان کی کردار کشی نہیں کی گئی کیونکہ انہوں نے عمران خان کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا تھا۔
فی الحال جو واحد مستحسن پیش رفت دیکھنے میں آئی وہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ہے ۔ اگرچہ انجام غیر یقینی، لیکن یہ ایک اچھا اقدام ہے ۔ جس روز عمران خان نے اس کا خیر مقدم کیا، اُسی روز اُن کی جماعت کے مرکزی ترجمان اس اقدام کو یہ کہہ کر مسترد کرچکے تھے کہ جس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے مخالفین ہوں، وہ درست تحقیقات پر قادر ہوہی نہیں سکتی ۔
عمران خان اس تمام پیچیدہ اور آلودگی سے اٹے ہوئے راستہ سے اجتناب کرکے اپنا دامن صاف رکھ سکتے تھے اگر وہ عائشہ کے الزامات کے جواب میں صرف تین الفاظ بول دیتے : وہ جھوٹی ہے ۔ یا وہ اس کی وضاحت بھی کرسکتے تھے کہ ’ میں نے اُسے پارٹی معاملات کے سواکبھی کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ ‘وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ عائشہ الزامات کا ثبوت چھپانے کی بجائے سامنے رکھے تاکہ وہ اُنہیں غلط ثابت کرسکیں۔ اس پر عائشہ اپنے الزامات کا ثبوت دینے پر مجبور ہوجاتی، اور یوں یہ معاملہ ختم ہو جاتا۔ یا پھر یہ اس کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا۔ لیکن دونوں صورتوں میں یہ مسئلہ حل کی جانب بڑھتا۔ تعجب ہے کہ عمران خان نے اس تنازع کو دور کرنے کے لئے یہ آسان راستہ کیوں نہیں اپنایا۔ اس کی بجائے اُن کی طرف سے جورد ِعمل آیا اُس نے کیچڑ میں مزید پتھر پھینکے،اور اس پرہر کوئی حیران بھی ہے۔
اب یہ عجیب صورت ِحال یوں دکھائی دیتی ہے :
سوال: عمران نے مجھے نازیبا پیغامات بھیجے۔
جواب:تمہاری بہن مختصر لباس پہن کر اسکواش کھیلتی ہے۔
سوال:عمران نے مجھے تین سالوں تک پیغامات بھیجے۔
جواب: تمہیں ایک جرگے کے سامنے پیش کیا جائے گاجہاں تمہیں اپنا الزام ثابت کرنا ہوگا، ورنہ تمہارا گھر گرادیا جائے گا۔
سوال: پی ٹی آئی میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں۔
جواب :اگر تمہار ا اپنا کردار درست ہوتو کچھ نہیں ہوتا۔
سوال: عمران خان کے قریبی ساتھی(عائشہ نے نعیم الحق کا نام لیا تھا)بھی ایسے ہی کردار کے مالک ہیں۔
جواب: تم نے ہمارے مخالفین سے پیسے لئے ہیں، تم گاڈ فادرکی سازش کا حصہ ہو۔ ہم ملک میں بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے کی اپنی پالیسی نہیں بدلیں گے۔
سوال: میں اپنے حقوق کی بات کرتی ہوں۔
جواب: تمہار ا گھر منہدم کیا جاسکتا ہے ۔ کیوں نہ ہم تمہارے چہرے پر تیزاب پھینک دیں(سوشل میڈیا مہم)
ملک میں بپا ہنگامے کا مکالماتی اختصار ہمیں بتاتا ہے کہ الزام اور اس کے جواب میں کوئی مناسبت نہیں۔ عمران خان کی طرف سے قدرے معقول ردعمل اس طرح ہوسکتا تھا:
سوال: عمران خان نے مجھے نازیبا پیغامات بھیجے۔
جواب : جھوٹی، ابھی ثبوت دکھائو۔
سوال:عمران نے مجھے تین سالوں تک پیغامات بھیجے۔
جواب: جھوٹی، ابھی ثبوت دکھائو۔
سوال: پی ٹی آئی میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں۔
جواب : جھوٹی، ابھی ثبوت دکھائو۔
سوال:عمران خان کے قریبی ساتھی(عائشہ نے نعیم الحق کا نام لیا تھا)بھی ایسے ہی کردار کے مالک ہیں۔
جواب: جھوٹی، ابھی ثبوت دکھائو۔
سوال: میں اپنے حقوق کی بات کرتی ہوں۔
جواب:کوئی حق تلفی نہیں ہوئی ۔ جھوٹی، ابھی ثبوت دکھائو۔
اور یوں یہ معاملہ وہیں ختم ہوجاتا،لیکن ایسا نہ ہوا، بالکل جس طرح ٹیریان کا معاملہ ختم نہیں ہواتھا۔ عمران خان کا واحد ردعمل یہ تھا کہ سیتا جھوٹ بول رہی ہے ، ٹیریان میری بیٹی نہیں۔ یہ معاملہ بھی وہیںختم ہوسکتا تھا۔ لیکن اس کے لئے عمران خان کو اس سے مختلف رد عمل دینا پڑتا جو اُنھوںنے اس وقت دیا اور سیتا وائٹ کی وفات کے بعد بھی مسلسل دیتے رہے کہ اُسے میرے سیاسی مخالفین نے میرے خلاف بیان دینے کے لئے پیسے دئیے ہیں ۔
عائشہ گلالئی اور سیتا وائٹ ، دونوں کیسز کا مرکزی الزام جنسی طور ہراساں کرنا اور شادی کے بغیر ایک بچے کا باپ بننا ہے ، اور یہ دونوں الزامات محض اس بنا پر دھول بن کر نہیں اْڑ جاتے کہ الزام لگانے والی (عائشہ اور سیتا) اُن کے سیاسی مخالفین کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھیں۔ شاید اب عائشہ اور ماضی میں سیتا عمران خان کے خلاف کی جانے والی کسی سازش کا حصہ ہوں۔ شاید اُنہیں کچھ مفاد پرستوں نے عمران کے سیاسی اہداف کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کیا ہو۔ شاید ایسی بات نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کی شکایات درست ہوں اور وہ میڈیا کی یلغار کی زد میں آگئی ہوں۔ شاید عمران ایک مہاتما ہوں۔شاید اُن پر ہمہ وقت سفلی جذبات سوار رہتے ہوں۔ عمران خان کی شخصیت جیسے ان پر الزامات لگائے جارہے ہیں ویسی ہی ہے۔ شاید عمران عام انسانوں کی طرح غلطیاں کرتے ہیںمگر ان غلطیوں کو سدھار نہیں پاتے۔ میں نہیں جانتا۔
ہمارے ملک کا موجودہ نظام حماقت اور جبر کا ملغوبہ بن چکا ہے ۔ غلط معلومات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عوام کو حقیقت سے بے خبر رکھا جاتا ہے ۔ تخیلاتی افسانوں کو حقیقت کا روپ دے کر ذہنوں میں ٹھونسا جاتا ہے ، اور انہیں رد کرنے ، یا اُن پر سوال اٹھانے کا بھی آپشن موجود نہیں ہوتا۔ یہاں ڈرامے بازی ہے، آمریت ہے، سازش ہے ، پروپیگنڈا ہے ، سب کچھ ہے سوائے حقیقت کے ۔ اگر عمران ایک سیاسی شخصیت نہ ہوتے تو اُن کی ذاتی زندگی زیر ِ بحث نہ ہوتی۔ لیکن جو بھی عوامی عہدیدار بننا چاہتا ہے اورلاکھوں افراد اُسے پسندکرتے ہوں تو پھر اُسے ان معاملات میں صاف ستھرا ہونا پڑتا ہے ۔ عوامی نمائندگی کا حق رکھنے کے لئے آرٹیکل 62اور 63کی چھلنی سے گزر کر آنا پڑتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم اُنہیں پسندنہ کریں لیکن یہ آرٹیکلز تو اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
اس وقت عمران خان کو عائشہ گلالئی کی طرف سے سنگین الزامات کا سامنا ہے ۔ اگر اُنھوںنے کوئی غلط کام نہیں کیا تو وہ سادہ سے الفاظ میں کہہ دیں کہ وہ جھوٹی ہے، اور وہ فوراً ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کریں۔ شاید اس کے لئے کسی کمیٹی یا عدالت تک بھی جانے کی نوبت نہ آئے ۔ وہ بس اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے رہیںکہ اُنھوںنے عائشہ کو ایسا کوئی پیغام نہیں بھیجا جسے جنسی طور پر ہراساں کرنا کہا جاسکے ۔ وہ سیتا وائٹ معاملے پر بھی یہی موقف اپنا سکتے تھے لیکن اُنھوںنے ایسا نہ کیا۔ سیتا عدالت میں گئی او ر اُس نے ثابت کردیا (جہاں تک عدالت کی تحقیقات اور فیصلے کا تعلق ہے ) کہ ٹیریان کس کی اولاد ہے ۔ عائشہ کے الزامات سنگین، بلکہ انتہائی تباہ کن ہیں۔ چنانچہ انہیں دیر تک ہوا میں معلق نہیں رہنا چاہیے ۔ دیگر بہت کچھ کہنے کی بجائے عمران خان صرف اتنا ہی کہہ دیں کہ وہ جھوٹی ہے ، نکالو ثبوت۔

تازہ ترین