• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے معزول وزیر اعظم نواز شریف براستہ جی ٹی روڈ اپنے ہزاروں حامیوں کے استقبالی ہجوموں کے جلو میں لاہور گامزن ہیں. پچھلے ہفتوں کے دوران ملک کے عوام سے کیا کھلواڑ کھیلا گیا ہے۔ وزیر اعظم قصوروار تھا کہ بےقصور؟ ملک کی آزادی کے ستر سال مکمل ہونے پر اب بھی وزرائے اعظموں کو اسلام آباد یا دارالحکومتوں سے اپنے گھروں کو زندہ یا مردہ بھیجنے والی جو بدعتیں ہیں انکا کلچر اب بھی روا ںدواں ہے مگر کیوں؟ احتساب کے زمرے میں ہر شوریدہ سر کی سرکوبی ہی کیوں ، احتساب کے نام پر محض سیاستدان ہی کیوں، جیسی تیسی بھی ہو جمہوریت ہی کیوں ہر دفعہ میزائل گائیڈڈ کیوں ہوتی ہے؟ اب یہ متھ یا تصور بھی فسوں اور فسانہ ہوا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو گھر نہیں بھیجا جا سکتا۔ نہ فقط بھیجا جا سکتا ہے پر اسے جہاز میں بٹھا کر نشست پر ہتھکڑی سے باندھ کر جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ ہائی جیکر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اسکے وزیر صفائی کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو سندھ کے جج کا کہ اس نے انصاف کو خاطر میں رکھا نہ کہ پراسرار بندوں کو۔ جب منتخب وزیر اعظم کے واسکٹ کے کالر میں خفیہ مائیک فٹ کیا جا سکتا ہے تو کیا کچھ ممکن نہیں پیارے پاکستان میں کہ اصل حکومت یا بادشاہت جن کی ہے سو ہے۔
لیکن ان سب واقعات ومظاہر پر عوام دھیان دے تو کیونکر کہ اتنا شہر بدتمیزی ہے جشن مرگ انبوہ جمہورہت یا جمہوری اقدار اور سوچ کا جنازہ ہے کہ کس کو اس کا وقت اور ظرف کہاں۔ کس نے کہا تھا جمہوریت کو ووٹ دو۔ اب بھگتو۔ ساری خرابی جمہوریت میں ہے عوام کو بتایا جاتا رہا ہے۔ ’’پاکستان کی سرزمین جمہوریت کیلئے موزوں نہیں۔‘‘ایوب خان سے لیکر آج تک کسی بھی بائیسویں گریڈ کے سول یا غیر سول بیوروکریٹ سے بات کرو یہی بھاشن دے گا جی دیکھیں نہ یہ جو اٹھارویں ترمیم ہے اس سے ملک کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ حالانکہ خطرہ محض اسٹیٹس کو کی بقول جالب گرتی ہوئی دیواروں کو ہی ہے۔ ایک دھکا اور دو۔ لیکن نواز شریف کو لگتا ہے اس گہرے کنویں میں جمہوریت کے میٹھے پانی کی تلاش یا میٹھے پانی کے سراب کے پیچھے ہی سہی تاریخ نے دھکا دینا تھا اور خوب دیا ہے۔ بڑی دیر کی مہربانوں نے میاں کو اس طرف دھکیلتے دھکیلتے۔ اسٹیٹس کو کی گود میں پرورش پانے والا پاکستان کی طاقت کے فراعین کے سامنے سینہ سپر پنجاب سے گزرتے شاہراہ گرینڈ ٹرنک عرف جرنیلی سڑک پر لوگوں کا نیل لیکر چلے گا۔ کس نے جانا تھا۔
ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائیں گے
مجھے تو حیرت یہ ہے کہ یہ سمجھنے اور کہنے میں شریف برادران نے بتیس سال لگا دئیے کہ بھٹو کو پھانسی غلط دی تھی اور ضیاء الحق نے اس کی حکومت کو غیر آئینی طور ختم کیا تھا، میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا۔ میرا دوست سخت بھٹو نواز ہے لیکن کہنے لگا کہ وہ اس جدوجہد میں نواز شریف کی حمایت میں ہے۔ نواز شریف سے زیادہ جمہوریت کی حمایت میں ہے۔
لیکن جمہوریت کی حمایت کی سزا لیڈروں سے زیادہ عوام کو ہی دی جاتی ہے۔ جمہوریت کی حمایت اور جمہوری مزاحمت کو روکا کیسے جائے۔ کہ لوگ ملنے نہ پائیں۔
پاکستان میں جنرل ضیا کی فوجی آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں سندھ اور سندھی عوام اگلا مورچہ اور اگلے مورچے پر تھے۔ وہ تب تک چین سے نہ بیٹھے تھے جب تک انہوں نے بینظیر بھٹو اور اسکی پارٹی کے روپ میں پاکستان کی وزیر اعظم اسلام آباد نہ بھیجی۔ سندھ کے جمہوریت کو ووٹ دینے کیلئے کیا کیا نہ خونی ناکہ بندی کی گئی۔ ڈاکو اور قاتل دہشت گرد لسانی گروہ اور فسادات سندھ پر مسلط کیے گئے تا کہ سندھیوں کا ووٹ جمہوریت کے خلاف جائے اور اسی طرح بینظیر بھٹو کا راستہ وزارت عظمیٰ ہر طرح روکنا مقصود تھا۔ اس میں نواز شریف بھی استعمال ہوئے آج جس طرح انکی اور ملک میں جمہوریت کی راہیں مسدود کرنے کو عمران خان اور طاہر القادری استعمال ہو رہے ہیں۔
لیکن یہ کہنا بھی زیادتی ہوگی کہ دوسرے صوبوں اور خاص طور پنجاب کا آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی میں کوئی کردار نہیں تھا۔ لاہور کے شاہی قلعے جیسے عقوبت خانے تو پنجاب میں ہی تھے نہ اور اسے پنجاب کے جمہوریت کے جیالوں اور جیالیوں نے آباد کیا تھا۔ لیکن جمہوریت دشمن قوتوں نے ایک طرح کی سخت سنسرشپ لگا رکھی کہ ایسی خبریں جمہوریت کیلئے قربانیوں کی ایک صوبے کی دوسرے صوبوں کے عوام تک نہ پہنچنے پائے۔ اب بھی یہی ہورہا ہے۔
آج کے دن اسلام آباد سے لیکر لاہور تک جی ٹی روڈ پر کیا ہو رہا ہے۔ کیسےجمہوریت کاراستہ روکا جا رہا ہے۔ کیسے فسطائیت کو ابھارا جا رہا ہے؟
جب غلط یا برابر جی ٹی روڈ پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے تو انکا ساتھ سندھ کے عوام بشمول سندھ کی جیلوں میں قیدیوں نے بھی دیا تھا۔ اب کی بار اس سے پہلے کہ سندھ کے لوگوں کو پنجاب میں ہونیوالی بحالی جمہوریت کی تحریک کے طوفان کے شروعاتی آتی آثار کا پتہ لگے یا پنجاب میں جمہوری مزاحمت کا ساتھ سندھ دینے کا سوچے اس سے قبل سندھ کے عوام کی اس طرف سوچنے کی صلاحیت کو ہی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا کیا جائے۔ اب کے بار سندھ میں سوچنے اور ریاست سے اختلاف رائے رکھنے والے ذہنوں کو ہی غائب کیا جا رہا ہے۔ گمشدگیوں کا ریاستی نفاذ ریاستی اور سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں۔ تیز تر کردیا گیا ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی اٹھانے شروع کیے گئے جوگمشدگیوں کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ وائس آف مِسنگ پرسنز کے سندھ کے سربراہ پنہل ساریو اسکی ایک مثال ہیں جن کو گزشتہ ہفتے غائب کردیا گیا۔ پنہل ساریو عدم تشدد کی سیاست پر یقین رکھنے والے اور کئی برسوں سے سندھ کی سول سوسائٹی میں سرگرم ہیں۔ اسی طرح اس کالم کے لکھنے تک سندھ کی سول سوسائٹی اور ملک و سندھ بھر میں خواتین کے انسانی حقوق کیلئے سرگرم امر سندھو جسے میں ارون دھتی رائے کا سندھی ورژن کہتا ہوں کے گھر میرپور خاص میں پولیس اور ایجنسیوں نے چھاپہ مارا۔ تھر سے پر تاب شوانی نصیر کنبھر اور بڑے دنوں سے لاڑکانہ سے سندھی قوم پرست خادم آریجو، اور خیرپور سے سولہ سالہ سیف جتوئی سمیت درجن بھر افراد غائب کر دئیے گئے ہیں۔ اب تو وہ جو غائب شدگان کیلئےآواز اٹھاتے رہے ہیں بھی غائب۔ یہ سندھ کے لوگوں کو جمہوریت کی حمایت کی سزا ہے کہ وہ انتہاپسند خیالات کو ترجیح دیں۔ ادھر پنجاب میں غائب شدگیوں سے رہائی پا کر آنے والوں میں سے کچھ بتا سکتے ہیں کہ آخرکار کیوں انکو نواز شریف کی حکومت کی خرابیوں پر دوران قید و تشدداور لیکچر دئیےگئے تھے۔ کیوں یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ انکے اٹھائے جانے میں نواز شریف حکومت کا ہاتھ ہے۔
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

تازہ ترین