• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگ ہنسائی ہو رہی ہے پورے ملک کی، ایسی کہ پہلے شاید ہی کبھی ہوئی ہو، اور ہر پہلو سے۔ سیاست کا بازار دیکھیں تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کوئی کام نہیں، کسی سیاسی رہنما کو۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں ملک کے سارے مسائل کا حل ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے میں ہی نظر آتا ہے۔ جس سیاسی رہنما کو دیکھیں اسے بس ایک ہی کام ہے، اپنے مخالفین میں کیڑے نکا لنا، اور اگر نہ ہوں تو ڈالنا اور نکالنا۔ لمبی لمبی زبان والوں کی پوری پوری ٹیمیں اودھم دھاڑ مچاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ دوسروں پر الزام لگائیں، اور کسی الزام کا جواب دیتے ہوئے شرافت اور اخلاق کا دامن تھامنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہر ایک میں سے جس کے ہاتھ کسی دوسرے کی کوئی کمزوری لگی، اسے لے اڑا۔ یا اگر کچھ خاص نہیں ملا تو بھی کسی نہ کسی بہانے سے مخالفانہ بیان تو دیا ہی جا سکتا ہے، سو وہ دئیے جارہے ہیں۔ افسوس ہوتا جب بظاہر معتبر نظر آتے لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر ایک دوسرے پر ذاتی حملہ کرتے ہیں اور گالم گلوچ تک اتر آتے ہیں۔ صبح سے شام تک ٹی وی پر، اور اگلے دن اخبارات کے صفحات الزام تراشیوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بھی سیاسی رہنما ایسا نظر نہیں آتا جس نے سڑک پر گندے کپڑے دھونے میں کوئی کردار ادا نہ کیا ہو۔ زبان ایسی کہ شرم بھی شرما جائے۔ کیا یہ کسی مہذب معاشرے کے فرد ہیں؟ کیا یہ کوئی مہذب معاشرہ ہے؟ انہیں دیکھ کر تو نہیں لگتا۔ اوریہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان کی تربیت کہاں ہوئی؟ وہ کون لوگ تھے جن کے ساتھ یہ اٹھے بیٹھے ہیں؟ یوں دیکھیں تو کسی کی تعلیم مغربی دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی میں ہوئی ہے، یا پاکستان کی کسی بڑی تعلیم گاہ میں۔ زبان اور رویہ دیکھیں تو ان تعلیمی اداروں کی شہرت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ سیاسی رہنما قوم کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر یوں لگتا ہے وہ تو خود تربیت کے محتاج ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے انہیں ایک دو خواتین کی کسی رہنما کے خلاف شکایت کے سوا کوئی اور مسئلہ نظر نہیںآتا۔ ان خواتین کی شکایتوں کا بھی ازالہ ہونا چاہیے، مگر کیا اس کیلئے ذرائع ابلاغ کوئی مناسب فورم ہے؟ مناسب فورم تو پارلیمان ہے یا عدلیہ۔ معاملہ کو وہاں لے جائیں جہاں اس کا حل موجود ہے۔ ذرائع ابلاغ اس کام کے لئے نہیں ہیں۔ ایک حد ہوتی ہے اس طرح کے معاملات پر گفتگو کرنے کی، سرعام، کھلے بندوں۔ یہ کم ہی لوگوں کو نظر آتا ہے کہ اس سے بدتر حالات کا اس ملک کی دیگر خواتین کو سامنا ہے۔ آخر اُس طرف بھی تو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ غربت کا شکار خواتین، ناکارہ شوہروں کے ظلم کا شکار خواتین۔ اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ تعلیم سے محروم بچے، بھوک سے تڑپتے، بلکتے لوگ، دوائوں سے محروم،جان توڑتے بچے۔ نجی اور سرکاری اسپتالوں کی حالت ِزار۔ کبھی تو اس طرف بھی توجہ ہو، دیکھیں تو سہی وہاں لوگوں پر کیا بیتتی ہے؟ جاں بلب مریضوں کے ساتھ ان نام نہاد مسیحائوں کا رویہ کیا ہوتاہے؟ اور وہاں کی انتظامیہ کا؟ معصوم بچے کس طرح تڑپ تڑپ کر جان دیدیتے ہیں، کبھی تو دیکھیں۔ تھرپارکر میں تقریباً روزانہ کئی بچے خوراک کی کمی کے باعث جان سے جاتے ہیں۔ یا لاڑکانہ میں، اور سب ہی علاقوں میں۔ کہاں سرکاری اسپتالوں میں مناسب بندوبست ہے علاج معالجہ کا؟ کہیں بھی نہیں۔ کتنا وقت ان مسائل کو دیا جاتا ہے؟ کیا یہ مسائل دوسرے معاملات سے کم اہم ہیں؟ مگر یہی اس ملک کا المیہ ہے۔ اصل مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ فروعات میں الجھے ہوئے ہیں، فرائض پر نظر نہیں جاتی۔
ٹی وی پر جس طرح ان خواتین کی شکایات پر بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے، کسی نے سوچا اس کے اثرات بچّوں پر کیا پڑ رہے ہوں گے ؟ عام گھروں میں، بچّے اور بچّیاں اپنے والدین سے کیا سوالات کر رہے ہوں گے؟ ہمارے یہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ان پہلوئوں پر غور کرے۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے خلاف مونیکا نامی ایک خاتون کی شکایت پر سینیٹ میں تحقیقات ہوئی۔ کسی وجہ سے اسے براہِ راست ٹی وی پر نشر کیا گیا، کئی گھنٹے تک۔ اس میں ظاہر ہے ہر طرح کی گفتگو ہوئی، معاملہ ہی ایسا تھا۔ ساری دنیا نے اپنے اپنے گھروں میں اسے دیکھا اور سنا۔ مگر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اُن کے ذرائع ابلاغ نے کئی تحقیقاتی رپورٹیں شائع کیں کہ بچّوں پر ان نشریات کا کیا اثر پڑا۔ جن لوگوں کے تبصرہ حاصل کر کے شائع کئے گئے ان میں بچّوں کی نفسیات کے ماہرین بھی شامل تھے۔ یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا اس طرح کے معاملات جس طرح نشر کئے گئے، یہ کوئی صحیح طریقہ ہے؟ ہمارے یہاں کون اس پہلو سے جائزہ لے گا کہ اس ساری بحث کا ہمارے بچّوں پر کیا اثر پڑا ہو گا؟ گھر میں بچّوں کو اس سوال کا جواب کون دے کہ ایک سیاسی رہنما نے کسی خاتون کو ایسا کیا پیغام بھیجا تھاکہ جس پر اتنا شور شرابا ہے؟ اب ہما رے ملک میں ایسی روایات ابھی موجود نہیں ہیں کہ بچّوں کو کس وقت ٹی وی دیکھنا چاہیے اور کس وقت نہیں۔ اور جب آپ سارا دن، اور ہر ٹاک شو میں ایک ہی موضوع پر بات چیت کررہے ہوں تو بچّوں کو ٹی وی سے کتنا محفوظ رکھا جا سکتا ہے ؟یا بچوںسے ٹی وی کو کتنا بچایا جا سکتا ہے ؟
دنیا بھر کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں، اگر ممکن ہو تو ان کے ٹی وی پروگرام بھی دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا، اس ملک کی کیا دُرگت بنائی جارہی ہے۔ پاکستان میں 70 سال میں کسی وزیراعظم نے اپنی مدت مکمل نہیں کی۔ ایک بھی طاقتور کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ جمہوریت کمزور ہوئی ہے، اور بھی بہت کچھ۔ ساری دنیا میں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے جب آپ اپنا گھر جلائیں گے تو پڑوسی تو ہاتھ تاپیں گے۔
بدقسمتی سے اس ملک میں ایسے ادارہ، ایسے تھنک ٹینک، موجود نہیں ہیں جو اس طرح کے حالات میں ذرائع ابلاغ کی رہنمائی کرسکیں۔ اور جن کے سامنے یہ مسائل رکھے جاسکیں اس توقع کے ساتھ کہ کسی حل تک وہ رہنمائی کردیں گے۔ یوں نہیں ہے تو آپ خود ہی سوچیں، خود ہی ان مسائل کا کوئی حل تلاش کریں، یہ مسئلہ حل تو ہونا ہے، ہونا چاہئے، اسی میں اس ملک کی بھلائی ہے، اور آپ کی ہماری بقا بھی۔
یک وضاحت:گزشتہ کالم (1954 سے2017 تک، جنگ 3اگست( میں، لکھا تھا ’’ یکم نومبر 1977 کو، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں مکمل بنچ نے ایک بار پھر مارشل لاء کو جائز قرار دیا۔ جسٹس وحیدالدین احمد، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم اور صفدر شاہ نے چیف جسٹس کی رائے سے اتفاق کیا۔ جبکہ جسٹس محمد افضل چیمہ، جسٹس محمد اکرام، جسٹس قیصر خان، اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے، چیف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے الگ الگ مختصر فیصلے تحریر کئے۔‘‘ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ صفدر شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا اسی لئے وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ یوں نہیں ہوا تھا۔ غلام صفدر شاہ نے بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل کے حوالے سے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ وکیل صفائی کے دلائل تسلیم کرسکتے تھے۔ مارشل لائی حکومت اس پر برافروختہ ہوگئی اور جسٹس صفدر شاہ کے خلاف الزام تراشی کی گئی اور مقدمے بنائے گئے۔ صفدر شاہ نے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دیدیا، اور اس کے فوراً بعد، 1980میں وہ خاموشی سے کابل چلے گئے۔ ریکارڈ کی در ستی کیلئے۔

تازہ ترین