• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بھی سننے کے لئے ہم زندہ ہیں کہ پرویز مشرف دھڑلے سے کہےکہ جمہوریت کا زمانہ خراب اور آمریت کا زمانہ اچھا تھا۔ یوں تو سننے کوبہت کچھ مل رہا ہے، دیکھنے کوبھی وہ کچھ ہے کہ اس پر صبر کرنا اور جواب نہ دینا بھی عبرت کا مقام ہے۔ یہ نتیجہ اس فیصلے کا ہے کہ جب سیاست دانوں نے ( معاف کیجئے شاید ہوں) یہ فیصلہ کیا کہ جوبنچوں کافیصلہ، اسے ہی سر آنکھوں پر تسلیم کرنا پڑگیا، ورنہ چلتے بنو۔ تمہاری ممبرشپ ختم، تمہاری سیٹ ختم۔ اس کو بھی کیا جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ تو پھر جنرل مشرف سچ لگنے لگتا ہے۔ بہت دنوں کی بات نہیں کچھ لوگوں نےجو کہ اسمبلی کے ممبر نہ تھے ۔ مگر حکومت سے اختلاف رکھتے تھے انہوں نے بلاگ بھیجے، لوگوں نے پڑھے اور واہ واہ کی۔ سرکار اور اس کے کارندوں نے کچھ نہیں کہا۔ بس یہ کیا کہ انہیں گھروں اور دفتروں سے سفید کپڑوں میں اٹھایا۔ جب بہت شور مچا تو سنا کیا، کہ وہ واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔ یہ بھی واہمہ تھا کہ نہ وہ گھر تھے اور نہ ان کی کوئی خبر تھی۔ اس طرح کے واقعات جمال نقوی،نذیر عباسی، جیسے حرف حق کہنے والوں کے ساتھ پیش ائے۔ جمال نقوی تو کئی سال بعد زندہ ہی زنداں سے نکل آئے، مگر نذیر عباسی کے ساتھ ویسا ہی کچھ واقعہ ہوا جوکہ ایوب خاں کے زمانے میں حسن ناصر کے ساتھ لاہور قلعے کی کال کوٹھڑی میں پیش آیا تھا۔ عمر میں بڑے ہوجانے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ مثلاً جب ہم چھوٹی کلاسوں میں تھے تو پڑھا کرتے تھے تو مجھے یاد ہے چندر گپت موریہ مہا تما بدھ کے زمانے کے اثرات، ہمارے ملک کے شمالی علاقوں کے پہاڑوں پر نقش ہوئے ہم پڑھتے اور دیکھتے تھے۔ واسکو ڈی گاما اور سکندر اعظم کے برصغیرآنے، فتح کرنے کی تفصیلات، غوری اور غزنوی کے حملوں اور ان کی وجوہات اور پھر دارا شکوہ کو مروا کر کس طرح اورنگزیب نے بیسیوں سال حکومت کی۔ کیسے شاہ جہان کو اس جگہ قید کیا گیا جہاں سے اسے تاج محل نظر آتا رہے۔ کس طرح چند سال ہی حکومت کرنے کے باوجود شیر شاہ سوری نے اپنا نام ایسا چھوڑا کہ آج کی نسل تک کویاد ہے۔ یہ سب میں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آج نہ جغرافیہ پڑھایا جاتا ہے اور نہ تاریخ پاکستان کی تاریخ جو لکھی گئی اس میں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان کے قیام کی لکیریں کھینچتے ہوئے، ریڈ کلف نے کس طرح فیروز پور اور گورداسپور، پنڈٹ، نہرو کی فرمائش پر ہندوستان میں ڈالا تھا کہ اس وقت تک کشمیر جانے کے لئے یہی راستہ استعمال ہوتا تھا۔
70سال گزرنےپردونوںملک ہندوستان اور پاکستان عصبیت کی اسی دہلیز پر کھڑے ہیں بلکہ سچ کہوں تواس سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب تو سلام دعا سے بھی گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ نہیں تو ایک ماہ میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کا آنا جانا ہوتا تھا۔ مریضوں کے لئے توایک ہفتے میں ویزا مل جاتا تھا۔ دونوں ملکوں میں کانفرنسیں، مشاعرے اور امن کے فروغ کے لئے وفود کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ اب اسوقت، دونوں ملکوں کے میڈیا نے اتنی غلط فہمیاں پھیلائی ہیں۔ دونوں ملکوں کے بچے، یہ سن کر بڑے ہوئے کبھی بھی ایک دوسرے کے دوست نہیں ہوسکتے۔ غالب ہوکہ میرا بائی کہ کبیر کہ فیض، ان کو پڑھنے والے اورگانے والے، دونوں ملکوں میں ہیں۔ کھانے بھی دونوں ملکوں میں ملتے جلتے ہیں۔ اگر ثقافت میں فرق نہیں تو گائوماتا اورکشمیر، لوگوں کو بلا تخصیص، گلیوں، چوباروں اور دہلیز پر مار دینے سے کیا دونوں ملکوں میں امن کی فضا بن سکتی ہے۔ ادھر کشمیریوں کی رائے نہیں مانی جارہی، ادھر فاٹا کے لوگوں کو خلا میں چھوڑ دیاگیا ہے۔ پاکستان میں تو خواتین سے متعلق اتنی غلاظت پھیلائی جارہی ہے کہ سن کر شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ آج کی خواتین یہ سمجھ رہی ہیں کہ ان کے ساتھ ہی جنسی ہراسانی کی جارہی ہے۔ میں تو بہت بعد میں نوکری میں آئی۔ گلزار بانو وغیرہ جو خواتین کا پہلا بیج تھا جن کو دفتروں میں کسی قسم کی سہولت نہ تھی۔ ہمارے زمانے میں بھی خواتین کے لئے الگ باتھ روم نہیں ہوتا تھا،ہمیں بھی ہمارے کولیگ کہتے تھے’’ آپ اکیلی خاتون میٹنگ میں کیا کرینگی مگر پٹاخ سے جواب سن کر مرد خاموش ہوجاتے تھے۔ ہم وہ سب خواتین جو شروع میں نوکریاں کرتی رہی ہیں وہ خواتین جو بیگم بھٹو ہوں کہ بے نظیر یا نواز شریف کی قید کے زمانے میں کلثوم نواز، کیا کچھ نہیں سنتی رہی ہیں۔ اپنے زمانے میں جنرل مشرف نے بھی توکہا تھا کہ خواتین خود ہی جسمانی زیادتی کے قصے گھڑلیتی ہیں تاکہ ان کو یورپ یا امریکہ جانے کی سہولت مل سکے۔ بولتے وقت ہمارے آج کے لوگ بھی ایسے فقرے بول رہے ہیں جیسے ان کی مائیں بہنیں نہ ہوں۔ عورت کو ہرزمانے میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ سخت جان ہے کہ جس نے ’ زاہدہ حنا بن کر‘ زندگی کا زنداں جیسی کتاب لکھی۔ ہمارے دوست ریاض اختر نے عورت کہانی میں ڈرامہ اور مزاحیہ شاعری میں، عورت کی تذلیل ہی کی گئی اس سارے منظر نامے کو بیان کیا ہے۔ آج ادھر کشمیری مررہے ہیں، ادھر افغانستان اور پاکستان میں داعش اور طالبان کے ظالمانہ کرتوتوں کے باعث درختوں اور سڑکوں پر خون اور کھال کی دھجیاں بکھری نظر آتی ہیں۔ آخر امن بھی کوئی چیز ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کو کب سمجھ میں آئیگا کہ ہم مائیں بچے یوں فنا ہونے کے لئے پیدا نہیں کرتے۔ ہمارے نبیوں نے وقت پڑنے پر صلح کی ہے۔ ہم نعوذباللہ کیا ان سے بھی بڑے ہیں۔

تازہ ترین