• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ بھر میں ادیبوں‘ شاعروں‘ صحافیوں و دیگر پڑھے لکھے قوم پرستوں کی ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرف سے پراسرار گمشدگیوں کا سلسلہ تھمنے کی بجائے اور تیز ہوگیا ہے‘ اس وقت اس صورتحال پر سندھ کے لوگوں کے جذبات کیا ہیں؟ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں ان کے ان دکھ بھرے اور انتہائی مشتعل جذبات کی صحیح ترجمانی کرسکوں‘ سندھ کے اکثر لوگوں کو صوبے اور ملک کی حکمران قوتوں سے شکوہ ہے‘ ان کو اس بات پر خاص طور پر دکھ ہے کہ سندھ کے ساتھ اس قسم کے آئین‘ قانون مخالف اور انسانیت دشمن سلوک پر ہمارا قومی میڈیا کیوں خاموش ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ہفتہ‘ دس دن پہلے اپر سندھ سے گمشدہ قوم پرستوں کے قریبی عزیزوں اور ہمدردوں نے بڑی تعداد میں کراچی تک پیدل مارچ کیا تھا جس میں خواتین اور گمشدہ کارکنوں کی بیٹیوں اور بہنوں نے خاص طور پر اس لانگ مارچ میں شرکت کی تھی جس کے نتیجے میں اکثر بچیوں کے پائوں شدید زخمی ہوگئے تھے‘ راستے میں جگہ جگہ اس لانگ مارچ کا لوگوں نے بڑی تعداد میں استقبال کیا اور آنکھوں سے بہتے آنسوئوں کے ساتھ مارچ کے شرکاء پر پھول نچھاور کیے اس مارچ کے تھکے ہوئے شرکاء جب کراچی پریس کلب پہنچے تو یہاں لوگوں نے انتہائی بڑی تعداد میں ان کا استقبال کیا اور ان کی داد رسی کی‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی پریس کلب پر ہونے والے اس مظاہرے کو قومی میڈیا نے کسی حد تک کور کیا تھا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے مگر گمشدگیوں کا یہ سلسلہ تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے بلکہ یہ سلسلہ اور تیزی سے شروع ہوگیا ہے لہذا اب سندھ کے اکثر لوگ حکمران قوتوں سے یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا وہ سندھ کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ سندھ کے لوگ بھی مشرقی پاکستان کے عوام والا راستہ اختیار کریں؟ مگر سندھ کے عوام تو پاکستان کو اپنے دل اور جگر سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہیں‘ ساتھ ہی سندھ کے یہ لوگ پھر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا سندھ کے قوم پرست ریاست کے خلاف کوئی مسلح جدوجہد کررہے ہیں؟ یا وہ چاہتے ہیں کہ سندھ کے لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے؟ سندھ کے یہی لوگ پھر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اور ’’ بھائی بندوں‘‘ کی طرح سندھ کے یہ قوم پرست بھی ہندوستان کی ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو گم کیے جانے والے کارکنوں کو عدالت میں پیش کرکے یہ الزامات سامنے لاکر ان کو ثابت کیوں نہیں کیا جاتا۔ دراصل مجھے اس ایشو پر حکمران قوتوں سے مخاطب ہوکر سندھ کے ان لوگوں کے دکھوں کے بارے میں نہ فقط احتجاج کرنا ہے مگر ان سے اس ایشو کے کئی پہلوئوں کے بارے میں کئی سوالات بھی کرنے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں کوئی سچ ہے تو سامنے لایا جائے اور ثابت کیا جائے یا سندھ کے عوام کے ساتھ یہ سنگین مذاق فوری طور پر بند کیا جائے۔ مجھے اس سلسلے میں آئندہ ایک الگ کالم لکھ کر سندھ کے عوام کے جذبات کھول کر نہ فقط ملک کی حکمراں قوتوں مگر ساری دنیا کے سامنے رکھنا ہے‘ مگر فی الحال اتنی بات کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ کے عوام کو بے پناہ شکایات ہیں ،ان کو خاص طور پر اس بات کا شکوہ ہے کہ دس دن پہلے کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے کے بعد جس کی کسی حد تک کوریج قومی میڈیا نے کی تھی لیکن ایک بار پھر گمشدگیوں کا سلسلہ تیز ہونے پر قومی میڈیا میں ان گمشدگیوں کی کوریج نہ ہوئی‘ ہاں البتہ سندھی اخبارات ان خبروں سے بھرے پڑے ہیں‘ ان مایوس لوگوں نے ایسے سندھی اخبارات مجھے بھی پیش کیے اور سندھ بھر سے قوم پرست کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد کی گمشدگیوں کی رپورٹیں دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی تو شدید دکھ بھی ہوا۔ کالم کے بقیہ حصے میں‘ میں اگر ان ساری خبروں کو مختصر کرکے بھی دے سکوں تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ خبریں فقط تین دن کے سندھی اخباروں میں شائع ہوئی ہیں جن کی مختصر تفصیل اس طرح ہے: چند دن پہلے وائس فار مسنگ پرسنز سندھ کے کنوینر اور انسانی حقوق کے رہنما پنہل ساریو‘ شاعر‘ ادیب اور ’’نئوں نیا پو‘‘ رسالے کے ایڈیٹر اور پبلشر انعام عباسی‘ سینئر صحافی غلام رسول برفت اور دیگر قوم پرستوں کو سندھ کے مختلف حصوں سے اٹھاکر گم کرنے کے خلاف سارا سندھ احتجاج کے لئے راستوں پر نکل آیا۔ مثال کے طور پر سول سوسائٹی کے رہنما تاج مری اور دیگر قوم پرستوں کی قیادت میں اتوار 6 اگست کو حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ممتاز سندھی ادبیوں اور دانشوروں نے شرکت کی‘ اسی دن حیدرآباد شہر میں سماجی رہنمائوں‘ رائٹرز‘ سیاسی اور سماجی کارکنوں‘ پنہل ساریو کی اہلیہ صغراں ساریو و دیگر کی قیادت میں الگ احتجاجی مظاہرہ کیا‘ اسی دن سندھ کے کئی علاقوں کراچی‘ عمر کوٹ‘ مٹھی‘ جیکب آباد‘ شہداد کوٹ‘ ٹنڈو محمد خان‘ کندھ کوٹ و دیگر شہروں میں مظاہروں سے خطاب کرنے والوں نے پاکستان کے چیف جسٹس‘ آرمی چیف‘ ڈی جی رینجرز اور وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کا نوٹس لیکر سارے گمشدہ لوگوں کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ گمشدگیاں انسانی حقوق‘ پاکستان کے قانون اور آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے‘ اسی دن کے سندھی اخبار میں اس سلسلے میں ایک اور خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاڑکانہ ضلع کے مختلف شہروں ڈوکری اور وارہ کے علاوہ دیگر علاقوں سے اٹھاکر گم کیے جانے والے قوم پرست کارکن مرتضیٰ جونیجو‘ مختیار عالمانی‘ صابر چانڈیو اور خادم آریجو کے عزیزوں نے اکٹھے ہوکر ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھاکر جناح باغ اور لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے دھرنے دیئے۔ اس مرحلے پر بتایا گیا کہ غلام مرتضیٰ جونیجو کو رات کے اندھیرے میں ڈوکری کے گائوں مندھرا سے تین ماہ پہلے گم کیا گیا ہے‘ مختیار عالمانی کے خاندان کے لوگوں بیوی زرینہ‘ بہن کلثوم نے صحافیوں کے سامنے فریاد کی کہ ان کے بھائی کو یکم جون کو اٹھاکر گم کردیا گیا ہے تب سے ان کا کوئی پتہ نہیں ہے‘ بتایا گیا کہ وارہ کے گائوں ابراہیم چانڈیو کے باشندے صابر چانڈیو کو ککڑ گائوں کے نزدیک سے اغوا کیا گیا جسے 108 دن ہوگئے ہیں‘ ان کی والدہ غلام فاطمہ‘ بہن عالمان خاتون‘ سلیمہ خاتون نے فریاد کی کہ ان کے عزیز کو گم کردیا گیا ہے اور اب ان کا کوئی پتہ نہیں ہے‘ حیدرآباد سے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے افسر خادم حسین آریجو کے ورثاء نے فریاد کی کہ ان کے عزیز کو گم ہوئے 4 ماہ ہوگئے ہیں مگر اسے آزاد نہیں کیا جارہا ہے‘ دادو پریس کلب کے صدر ولی چانڈیو کے بھائی محبوب چانڈیو کی آزادی کے لئے دادو کے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے احتجاج کیا۔ ان تین اخباروں کے اس سلسلے کی اور بھی کئی خبریں ہیں جو سب اس کالم میں شامل نہیں کرسکتا۔ فی الحال میں اس صورتحال پر قانون دانوں اور مختلف سیاسی تنظیموں کی طرف سے جاری کیے گئے بیانات کو مختصر پیش کررہا ہوں۔ ایاز لطیف پلیجو نے کہا ہے کہ ’’یہاں حقوق مانگنے پر اٹھا کر گم کیا جارہا ہے‘‘۔ سندھ کے ممتاز دانشور جامی چانڈیو نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کہا کہ پنہل ساریو‘ انعام عباسی و دیگر کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ عوامی جمہوری پارٹی کے رہنمائوں امان اللہ شیخ‘ ابرار قاضی و دیگر رہنمائوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’سندھیوں کو اس طرح اغوا کرکے گم کیا جارہا ہے جیسے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں ہیں‘‘۔

تازہ ترین