• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ریاستی اداروں کو باہمی تصادم سے بچانے اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے انتظامیہ، عدلیہ اور فوج کو ڈائیلاگ کی دعوت دے کر بلاشبہ ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جو قومی ترقی اور استحکام کا مستقل تقاضا جبکہ ملک کی موجودہ فضا میں بالخصوص وقت کی عین ضرورت ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا میں گزشتہ روز پانا کیس کے عدالتی فیصلے کے بعد کی صورت حال میں پارلیمنٹ کے کردار کے موضوع پر اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی اداروں میں محاذ آرائی نہ ہو۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کریں اور مفاہمت کے عمل سے جمہوری نظام کو مستحکم کیا جائے۔چیئرمین سینیٹ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان بین الادارہ جاتی مکالمے کا اہتمام کیا جائے گا اور اس کے لیے انتظامیہ اور فوج کو وزیر اعظم اور عدلیہ کو چیف جسٹس کے ذریعے مدعو کیا جائے گا۔انہوں نے وضاحت کی کہ اس سلسلے میں کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا جائے گاجس میں اراکین سے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے حتمی تجاویز لی جائیں گی ۔میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اداروں کا باہمی تصادم ملک کے لیے نقصان دہ ہے،طاقت کے مراکز عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمان میں مؤخر الذکر سب سے کمزور ہے جس پر کبھی انتظامیہ و کابینہ ، کبھی عدلیہ اور کبھی آمرانہ طاقتوں کی جانب سے یلغار ہوتی ہے ۔چیئرمین سینیٹ نے تسلیم کیا کہ پارلیمان کی اپنی خامیاں بھی ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خود سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ کو قرار واقعی اہمیت نہیں دے رہی ہیں،وزیر اعظم کی جانب سے پالیسی بیانات پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں دیئے جاتے ہیں،وزراء کی پارلیمنٹ میں کم حاضری سے پارلیمانی کارروائی میں مشکلات پیش آتی ہیں،زیادہ تر فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہورہے ہیں،بڑے قرضوں اور خصوصی معاہدوں کی تفصیلات پارلیمان میں پیش نہیں کی جاتیں۔اپنے خطاب میں انہوں نے ہدایت کی کہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد سیاسی صورت حال پر بحث میں ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی جائے اور حکومت وحزب اختلاف مشترکہ طور پر تجاویز تیار کریں۔ قبل ازیں اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تکنیکی بنیادوں پر نااہل قرار دیے جانے کا خیر مقدم نہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے پر سوچا جانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جانی چاہیے جو ان سوالات کا جواب ڈھونڈے کہ اس فیصلے سے سیاسی استحکام ہوگا یا عدم استحکام،کیا صادق اور امین ہونے کی شرط صرف ارکان پارلیمان ہی پر لاگو ہوگی یا اسے بیورو کریٹس، ججوں اور جرنیلوں کی اہلیت کا معیار بھی قرار دیا جائے گا،ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف احتساب کا عمل اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک سب کا یکساں احتساب نہ ہو اور کسی کو بھی مقدس گائے کا درجہ نہ دیا جائے۔ قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے ان سوالات کے درست جواب تلاش کیے جانے اور ان کے مطابق معاملات چلائے جانے کی ضرورت بالکل واضح ہے۔پاناما کیس میں وزیر اعظم کو جس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا،اس پر متعدد ممتاز ماہرین قانون اور حکمراں جماعت ہی نہیں حزب اختلاف کے کئی نمایاں رہنماؤں کا بھی عدم اطمینان صورت حال کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔سابق وزیر اعظم اپنے خطابات میں جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں ، متعدد سیاسی مبصرین کے مطابق ان سے ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے بڑھنے کا تاثر ملتا ہے ۔ ان حالات میں سینیٹ کی جانب سے اداروں کے درمیان مکالمے کا اہتمام کرنے سے یقیناًبڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی آئے گی اور موجودہ صورت حال جن مسائل کا سبب بن رہی ہے ان کا مستقل حل تلاش کیا جاسکے گا۔ بہتر ہوگا کہ تجاویز کی تیاری کے عمل میں قومی اسمبلی کو بھی شریک کیا جائے کیونکہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ کاوشیں درپیش مسائل کے حل کی تلاش اور ریاستی اداروں کے درمیان مفاہمت کے لیے یقیناًزیادہ مؤثر ثابت ہوں گی۔

تازہ ترین