• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک رپورٹ کے مطابق نیب نے 2015 میں سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی میگا کرپشن کے 175کیسز کی فہرست میں سے14اہم ترین مقدمات کی تحقیقات بند کردی ہیں قوانین میں کوئی ایسا سقم پایا جاتا ہے جس سے گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے عرصہ میں منظر عام پر آنے والے بعض سیاسی شخصیات کےمشہور کیس بھی دب گئے۔ نیب کی اعلانیہ پالیسی کے تحت ہر کیس کو تحقیقات کے لیے ریفرنس میں تبدیل کیا جانا تھا مگر مذکورہ کیسز میں ایسا نہ ہو سکا۔ نیب نے2015 کے اوائل میں بلیک میلنگ، مخصوص لوگوں کو نشانہ بنانے اور سیاسی انتقام کو روکنے کے لیے ریجنل چیفس اور ڈائریکٹر جنرلز کے صوابدیدی اختیارات محدود کر دیئے تھے اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ درج کی جانے والی شکایت 10ماہ کے اندر ریفرنس میں تبدیل کر دی جائے گی یا پھرکیس کو بند کر دیا جائے گا۔ متعلقہ حکام کو درج شدہ شکایت کی تصدیق کا عمل دو ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر کسی شکایت کی تصدیق ہو جائے اور اس میں بظاہر کوئی شواہد نظر آجائیں تو اسے انکوائری میں تبدیل کیا جائے گا، بصورت دیگر کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا جائے گا لیکن ان قوانین میں یا ان کی عمل داری میں ضرور کسی جگہ ایسی کمزوری پائی جاتی ہے جس سے مذکورہ 14کیسز کی تحقیقات بند ہوئیں تحقیقات کی تکمیل کے بغیر جو کیسز بند ہوتے ہیں اور اگر یہ سچے ثابت ہوتے ہیں تو لوٹی ہوئی دولت کیونکر قومی خزانے میں واپس آئے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے ملک کی 70سالہ تاریخ اس قسم کی لوٹ مار سے بھری پڑی ہے اور تحقیقاتی ادارے محض ڈنگ ٹپائو کام کرتے رہے جن کا اربوں روپے سالانہ بجٹ بھاری تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اب تک ہزاروں کرپٹ لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو چکے ہیں لیکن انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو اوپر سے نیچے تک کرپشن فری بنانے کےلیے ایسا میکنزم تیار کیا جائے جس میں کرپشن کے مقدمات کی شفاف تحقیقات اور بر وقت فیصلے یقینی بنائے جائیں۔

تازہ ترین