• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اعظم نوازشریف، عہدے سے فارغ ہوتے ہی عوام میں آگئے ہیں۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے انکی نا اہلی کا فیصلہ سنایا۔ توقع کے بر عکس انہوں نے کسی تلخ رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صرف اپنے رفقاء سے مشورہ کیا۔ اپنی پارٹی سے رابطہ کیا۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا۔ شاہد خاقان عباسی کو بطور وزیر اعظم نامزد کیا۔ وہ اس وقت تک مری اور اسلام آباد ہی مقیم رہے جب تک وزیر اعظم کا انتخاب نہیں ہو گیا اور نئی کابینہ نے حلف نہیں اٹھا لیا۔ اپنے جانشین کے اقتدار سنبھالنے اور با ضابطہ حکومت قائم ہو جانے کے بعد ، وہ یکسو ہو گئے۔
مطمئن ہوتے ہی نواز شریف نے متحرک ہونے کا پروگرام بنایا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے لاہور جانے کا پروگرام طے کیا۔ اسکے بعد تین دن وہ لگاتار ملک بھر کے اخبار نویسوں سے ملتے رہے۔ ان ملاقاتوں کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں اور آئندہ انکا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ نواز شریف کا بیانیہ یہ سامنے آیا کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ کوشش کے باوجود کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملاتو انہیں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام میں زندگی بھرکیلئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اخبار نویسوں کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے بعد وہ لاہور کیلئے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں کئی جگہ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تکرار کیساتھ یہ بات کہی کہ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، ستر سالوں کے دوران کسی ایک بھی وزیر اعظم کو اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔انکا کہنا تھا کہ عوام کے منتخب وزرائے اعظم کی مسلسل توہین ہو رہی ہے ، جو دراصل ووٹروں اور عوام کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا، پاکستا ن میں نہ تو استحکام آسکتا ہے، نہ ہی وہ ترقی کر سکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے جو سوال اٹھایا ہے اسکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ واقعی درست ہے کہ کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر سکا اور یہ بھی کہ چار آمروں نے اوسطا نو نو سال حکومت کی۔ سیاست کے طالبعلموں کیلئے یہ سوال واقعی نہایت اہم ہے۔ اور اب تو یہ سوال عام آدمی کی سطح تک آگیا ہے۔ آئیے اب تک کے وزرائے اعظم کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی کسی بھی وزیر اعظم کو پانچ سالہ آئینی مدت اقتدار پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ذرا اس تفصیل پر نظر ڈالیے۔
لیاقت علی خان(4 سال 1 ماہ) خواجہ ناظم الدین (1 سال 6 ماہ) محمد علی بوگرہ (2 سال 3 ماہ 13 دن) چوہدری محمد علی (1 سال 1 ماہ 1 دن )حسین شہید سہروردی (1 سال 1 ماہ 6 دن)آئی آئی چندریگر (1 ماہ 28 دن) فیروز خان نون (9 ماہ 21 دن)نور الامین (13 دن) ذولفقار علی بھٹو (3سال 10 ماہ21 دن) محمد خان جونیجو (3 سال2 ماہ 12 دن) بے نظیر بھٹو (1 سال10 ماہ4 دن) غلام مصطفی جتوئی (3 ماہ)محمد نواز شریف (2 سال 5 ماہ 12 دن) بلخ شیر مزاری(1ماہ 8 دن) محمد نواز شریف (1 ماہ12 دن) معین قریشی (3 ماہ 11دن) بے نظیر بھٹو(3 سال 16 دن) ملک معراج خالد (3 ماہ 12 دن) محمد نواز شریف (2سال 7 ماہ 25 دن) میر ظفر اللہ خان جمالی(1سال 7 ماہ 3دن)چوہدری شجاعت حسین (1 ماہ 27 دن) شوکت عزیز (3 سال 2 ماہ 18 دن)محمد میاں سومرو (3 ماہ 8 دن) یوسف رضا گیلانی (4 سال2ماہ24 دن)راجہ پرویز اشرف (9 ماہ 2 دن) میر ہزار خان کھوسو (1 ماہ 22 دن)محمد نواز شریف (4 سال1 ماہ 22 دن)۔
یہ تو تھی وزرائے اعظم کی کہانی۔ ان میں تین نام ایسے ہیں جنہیں عوام میں زبر دست مقبولیت حاصل رہی اور جو ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف ۔ پہلے کو قاتل قرار دے کر پھانسی چڑھا دیا گیا۔بے نظیر بھٹو دو بار منتخب ہوئیں۔ دونوں بار انہیں معزول کر دیا گیا۔ وہ دس برس کے بجائے صرف 4 سال10 ماہ20 دن حکومت میں رہیں۔ 2008 کے انتخابات سے چند دن قبل وہ قتل ہو گئیں۔ تیسرے وزیر اعظم نواز شریف کو عوام نے تین بار منتخب کیا ۔ انہیں پندرہ سال حکومت کرنے کا حق تھا ، لیکن وہ صرف 9 سال 2 ماہ اور 29 دن حکومت کر پائے۔ انہیں پہلے ہائی جیکر قرار دیا گیا۔ پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ پھر فارغ کر دیا گیا۔ جہاں تک فوجی حکمرانوں کے عرصہ اقتدار کا تعلق ہے جنرل ایوب خان نے 10 سال 4 ماہ 28 دن آمرانہ حکومت کی۔ جنرل یحییٰ خان 2 سال 8 ماہ 25 دن حکمران رہے۔ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پیش نہ آتا تو وہ بھی کم از کم دس سال تک حکمران رہتے۔تیسرے ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیا الحق نے 9 سال 11 ماہ 1 دن حکومت کی۔ بہاولپور کا فضائی حادثہ نہ ہوتا تو یقینا انکی حکمرانی کئی سال مزید جاری رہتی۔ جنرل پرویز مشرف تقریبا نو برس سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چار فوجی آمروں نے تقریبا 32 سال اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حکومت کی۔ دوسری طرف تین مقبول ترین وزرائے اعظم(ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف) نے بار بار منتخب ہونے کے باوجود محض 17 برس حکومت کی۔
یہ ہے ہماری تاریخ کی افسوس ناک کہانی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اسی تاریخ کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔ سوال تو سیدھا سادہ ہے ..... "کیا وجہ ہے کہ ستر برس میں کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر پایا"۔ یہ سوال انہوں نے بار بار اٹھایا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں بھی اٹھایا ہے اور اسلام آباد سے لاہور تک عوامی رابطہ مہم کے دورن بھی اٹھاتے رہے۔سوال تو پوری شدت کیساتھ سامنے آگیا ہے۔ کیا اس کا جواب تلاش کیا جا سکے گا؟اور کر لیا بھی گیا تو کیا اس مسئلے کا کوئی پائیدار اور مستقل حل بھی تلاش کیا جا سکے گا؟

تازہ ترین