• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق امیر جماعت اسلامی اور چیئرمین ملی یکجہتی کونسل محترم قاضی حسین احمد نے معاشرہ میں میڈیا کے ذریعہ بڑھتی ہوئی بے حیائی اور انڈین کلچر کی فوری روک تھام کے لیے حال ہی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ازخود نوٹس لینے کی درخواست بھیجی۔ اس درخواست کے ساتھ قاضی صاحب نے تقریباً 24 نام ور علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوٴں کی طرف سے اس سلسلے میں ایک حالیہ اجلاس میں پاس کی گئی قرارداد کو بھی منسلک کیا۔ قارئین کی دلچسبی اور اس امید کے ساتھ کہ پاکستان کے قاضی القضاة محترم افتخار محمد چوہدری ہماری سیاست کے محترم قاضی صاحب کی اس درخواست پر ضرورازخود نوٹس لے کر پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والی بے حیائی اور انڈین کلچر کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کوضروری اقدامات کی ہدایت دیں گے، قاضی صاحب کی درخواست بمعہ قرارداد کو ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔
”قابل احترام چیف جسٹس آف پاکستان جناب محمد افتخار چوہدری صاحب
السّلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی خیریت سے ہونگے۔
یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ مملکت ِ خداداد پاکستان کا وجود ایک نظریہ اور فلسفہ کا مرہونِ منت ہے جوایک ایسی آزاد مملکت جہاں مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا ،اپنی جداگانہ اقدار و روایات اور تشخص کو بر قرار رکھ سکیں، کاتصور پیش کرتا ہے ۔مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے قیام پاکستان کے مقاصد اور نظریہ کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔
آج میں آپ کی توجہ مملکت خدا داد پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانی کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں،جس سے ایک طرف نظریہ پاکستان کی بنیادوں کونقصان ہورہا ہے تو دوسری طرف دستور پاکستان اورملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب بھی ہورہا ہے۔فحاشی وعریانی کے پھیلاوٴ میں جہاں انڈین چینلز بالخصوص (Star Plus اور Sony وغیرہ) ملوث ہیں، وہاں قانونی پاکستانی چینلز بھی پیش پیش ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستان میں فحش ویب سائٹس کی بھرمار ہے اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ فحش سائٹس دیکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ بلامبالغہ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہونگا کہ اس وقت کوئی بھی شریف آدمی اپنے اہل وعیال کے ہمراہ کسی بھی قانونی چینل کے پروگراموں کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ باقی جو غیر قانونی انڈین چینل ہم پر ظلم ڈھا رہے ہیں، اُس کی تو کوئی حد ہی نہیں۔حکومتی ادارے PEMRA اورPTA اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنے میں بالکل ناکام ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA) بھی اپنی قومی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتی، بلکہ اب تو یہی تاثر ابھر رہاہے کہ ان چینلز اور کیبل آپریٹرز کو حکام بالاکی سرپرستی اور تعاون بھی حاصل ہے۔گزشتہ پیر میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں تمام مذہبی مکاتب فکر کی ایک کانفرنس میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانی کے خلاف ایک قرارد اد پیش ہوئی ، جس کی منظوری تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والے قائدین نے متفقہ طو رپر دی۔
میں اصل قرارداد کا متن اور کانفرنس کے شرکاء کی فہرست اپنے اس خط کے ساتھ منسلک کرکے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس نازک اور حسّاس معاملہ پر ازخود نوٹسSuo moto notice))لے کر ایک اہم قومی مطالبہ کو پورا کر دیں۔
امید ہے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ، آئین پاکستان و قوانین کی پاسداری کیلئے میری اس دردمندانہ اپیل پر ضرور ایکشن لیں گے۔ شکریہ
مخلص
قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان و چیئر مین ”ادارہ فکروعمل“
متن قرارداد
اسلام اور دو قومی نظریہ کے نام پر بننے والی ریاست ‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو فحاشی و عریانی کے ذریعے کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلزپر چلنے والے نام نہاد تفریحی پروگراموں، ڈراموں اور اشتہارات کے نام پر قابل اعتراض مواد پیش کیا جا رہا ہے جو ہماری نسلوں کی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔ باالخصوص انڈین چینلز (Star Plus اور Sony وغیرہ)کی بھرماراور انڈین ڈراموں ، فلمی ایوارڈشوزاور دیگر پروگراموں سے نوجوان نسل کوہندو رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کے جال میں پھنسانے کی کوشش اور امریکہ کی غلامی کیساتھ ساتھ ذہنی اور ثقافتی طورپر ہندوستان کی غلامی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ Re-enactment کے نام سے جرائم کے واقعات کی منظرکشی کے ذریعے ریپ سین اور دیگر جرائم دکھانے سے آگہی کے بجائے مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کو تحریک مل رہی ہے۔ایک غیر جانبدار سروے اور تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں فحش ویب سائٹس سب سے زیادہ پاکستان میں دیکھی جاتی ہیں، جس کی ذمہ داری ( P.T.A) پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ہے لیکن مذکورہ ادارہ اس کو روکنے میں ناکام نظر آرہاہے۔پاکستانی سنیماہالوں میں انڈین فلموں سے ہم اپنی نوجوان نسل کو اسلام اورپاکستان سے دور کر رہے ہیں۔ایف ایم ریڈیو پر رات گئے نشر ہونے والے پروگراموں میں لائیو کالز (Live Calls) ہو ں یا اشتہارات میں بنت حوّا کی تضحیک کا تماشا‘ یہ سب ایک طرف اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے تو دوسری طرف آئین پاکستان کا کھلا مذاق ۔دو قومی نظریے کو ازکارِ رفتہ اور پیش پا اُفتادہ باتیں کہی جارہی ہیں،اس پر مزید لطف یہ کہ بڑے پیمانے پرملک میں مغربی اور ہندوانہ ثقافت و تہذیب کافروغ جاری ہے،نجی چینلز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے تمام اخلاقی اور قانونی حدوں کو پار کر رہے ہیں۔
غیر قانونی انڈین اورپاکستانی ٹی وی چینلز ، انٹر نیٹ ،اشتہارات اورایف ایم ریڈیو کے ذریعے پاکستانی معاشرہ کوفحاشی وعریانی سے پاک رکھنا وفاقی و صوبائی حکومتوں اور باالخصوصPTA, PEMERA اور PBA کی ذمہ داری ہے، جس میں متعلقہ ادارے مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔
علمائے کرام کے اس فورم کے ذریعہ ہم حکام بالا کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
1․قانونی چینلز کے ذریعہ فحاشی وعریانی کا سبب بننے والے پروگراموں، ڈراموں، اشتہاروں کو پیمرا ریگولیشن کا پابند بنایا جائے۔
2․غیر قانونی چینلز باالخصوص انڈین چینلز کو فی الفور بند کیا جائے۔
3․ قانونی چینلز پر دکھایا جانے والا انڈین مواد ختم کیا جائے۔
4․چین ، سعودی عرب، سنگاپور اور دیگر ممالک کی طرح انٹرنیٹ کی اسلام مخالف اور فحش سائیٹس کو بلاک کیا جائے۔
5․غیر قانونی چینلز کو سہولیات فراہم کرنے والے کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی کی جائے۔
6․اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات رائع ابلاغ کی اصلاح “ کی روشنی میں میڈیا کے لیے ایک پالیسی بنائی جائے۔“
تازہ ترین