• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھرمیں توہین عدالت کے قوانین کو کیسے دیکھا جاتاہے؟

Todays Print

لاہور(صابر شاہ)  اگرچہ اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عدالت کی توہین کا اقدام قانون کی عدالت سے بے زاری یا غیر مؤدبانہ رویہ ہر ملک میں قابل مذمت ہے کیونکہ یہ رویے ججوں کے اختیار کی جان بوجھ کر توہین کے مترادف ہیں  تاہم بھارت سمیت کئی ملکوں میں توہین کے موجودہ قوانین پر نظر ثانی اور ان میں مناسب ترمیم کے موضوع پر بحث جاری ہے۔

’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے 28جولائی 2014ء کو اپنی رپورٹ میں کہا ’’بھارت کا موجودہ توہین عدالت کا قانون برطانیہ کے اصل قانون سے کشید کیا  گیا ہے، یہ 1765ء میں جج ولموٹ کے  فیصلے سے لیا گیا ہے جس میں جج کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے حوالے سے اختیار ججوں کے عزت و وقار اور ان کے اختیار کو تسلیم کرانے کے لئے ضروری ہے۔‘‘  

    سر جان ارڈلی ولموٹ (1709تا1792ء) ایک برطانوی جج تھے جو1766ء سے 1771ء تک عمومی درخواستوں کے چیف جسٹس رہے ۔مؤقر بھارتی میڈیا ہائوس مزید لکھتا ہے ’’مگر یہ وقار اورججوں کا اختیار کہاں سے آتا ہے؟ برطانیہ میں استعماری اَدوار میں یہ اختیار بادشاہ سے آتا تھا جو انصاف کی بنیاد تھا اوراکثر اوقات مقدمات کے خود فیصلے کرتا تھا۔ بعد ازاں جب اسے بہت سے اور فرائض ملے تو اس نے عدالتی اختیارات اپنے نمائندوں کو دے دیئے جنہیں جج کہا گیا۔ پس بادشاہت میں ایک جج حقیقت میں بادشاہ کے دیئے گئے اُمور کو نبھاتا ہے اور اس کے لئے اسے وقار، اختیار اوردبدبے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی سب سے زیادہ ضرورت خود بادشاہ کو ہوتی ہے تاکہ اس کی تابعداری کی جائے۔

استعماری اَدوار میں بادشاہ بالادست تھا اورعوام محکوم تھے وہ اس پر تنقید نہیں کر سکتے تھے،۔ تنقید پر سزا ہوتی تھی۔‘‘’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے مزید لکھا ’’تاہم جمہوریت میں یہ رشتہ اُلٹ ہوتا ہے، اب عوام بالادست ہیں اور تمام ریاستی ادارے بشمول جج ان کے ملازم کے علاوہ کچھ نہیں۔ پس جمہوریت میں ججوں کو اپنے اختیار کومنوانے یا اپنے عزت و وقار کی نمائش کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا اختیار توہین عدالت کے خوف سے نہیں بلکہ عوام کے اعتماد سے استعمال ہوتا ہے اور اس کا انحصار خود ان کے رویے، ساکھ، غیر جانبداری اور مہارت پر ہوتا ہے‘‘۔

میڈیا ہائوس مزید لکھتا ہے کہ ’’اس رائے کو اب خود برطانیہ میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے‘‘۔ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے 1981ء میں ایک کیس کی سماعت کے دوران لارڈ سیلمن کے حوالے سے کہا ’’توہین عدالت کے بیانیہ کی بلا شبہ تاریخی بنیاد  ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ گمراہ کن بھی ہے، اس کا مقصد عدالت کے وقار کانہیں بلکہ انصاف کی فراہمی کے انتظام کا تحفظ ہے۔‘‘

اس نے 1968ء کے ایک منصف لارڈ ڈیننگ کا حوالہ دیا تھا جن کا کہنا تھا ’’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے وقار کو اُجاگر کرنے کے لئے اس اختیار کو استعمال نہیں کر سکتے، اس کا انحصار بنیادوں پرہے، نہ ہی ہم اس اختیار کو ان لوگوں کو دبانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جو ہمارے خلاف بولتے ہیں، ہمیں تنقید کاخوف نہیں اور نہ اس سے ہم خفا ہوتے ہیں، اس لئے ایک اہم چیز دائو پر لگ سکتی ہے جو اظہار رائے کی آزادی ہے، بات یہ ہے کہ جو ہم پر تنقید کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے  فرائض کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ ہم اس تنقید کا جواب نہیں دے سکتے ، ہم عوامی سطح پر تنازع میں نہیں پڑ سکتے، ہمیں اپنے رویہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو تسلیم کرانا ہوتا ہے۔‘‘

’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ مزید لکھتا ہے ’’بعض اوقات ایک ایماندار جج پر غیر منصفانہ اور ناجائز تنقید کی جاتی ہے۔ اس صورت میں اس جج کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ اس بے بنیاد تنقید کو نظر انداز کردے (بلکہ اپنی توجہ ایمانداری اور اس تنقید کی تصحیح پر مرکوزکرے) اسے چاہئے کہ وہ بے بنیاد تبصروں سے پریشان اور متاثر ہوئے بغیر اسے اپنے کندھوں سے اُتار دے۔‘‘ اس نے مزید لکھا کہ ایک دفعہ ایک برطانوی اخبار نے ہائوس آف لارڈز کے ججوں کی اکثریت کا حوالہ دیتے ہوئے ’’تم بے وقوف‘‘ کی شہ سرخی لگائی۔ اس توہین آمیز شہ سرخی کا جواب ججوں نے 1987ء کے سپائی کیچر کیس میں اپنے فیصلے سے دیا جب برطانوی اٹارنی جنرل نے گارڈین اخبار کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔ اس کیس میں برطانوی خفیہ سروس کے ایک ریٹائر ملازم آسٹریلیا سے اپنی یادداشتیں شائع کرانا چاہتے تھے اورحکومت نے اس سوانح عمری کی اشاعت کو روکنا چاہا۔ ججوں کی اکثریت نے اٹارنی جنرل کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قراردیا کہ ’’جب خفیہ معاملات ایک خفیہ ایجنٹ سامنے لاتا ہے تو وہ تیسرا فریق بن جاتا ہے جو اطلاعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور تیسرے فریق کی اس سرگرمی کو روکنا ضروری ہے‘‘۔

جب عالمی شہرت یافتہ بھارتی ماہر قانون نالی سام نرامان نے جو بار ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر بھی رہے اور اس  موقع پر برطانیہ میں موجود تھے۔ ایک جج اور لارڈ ٹیمپل مین سے استفسار کیا کہ ججوں نے اس توہین کا ایکشن کیوں نہیں لیا؟ تو اس منصف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ میں جج ذاتی توہین کانوٹس نہیں لیتے۔ اگرچہ انہوں نے خود کو ’’بے وقوف‘‘ تسلیم نہیں کیا تاہم دیگر کی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ لارڈ ٹیمپل مین ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے یہ اکثریتی فیصلہ دیا تھا کہ ریاستی رازوں کو شائع نہیں ہونا چاہئے۔1975ء میں بلوگ بنام کرائون کورٹ کیس میں معروف معاشی ماہر کے بیٹے بلوگ نے کیس کو ’’دوبارہ زندہ‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے نائٹرس آکسائیڈ کے بارے میں پڑھا جسے آکسفورڈ میں ’’لافنگ گیس‘‘ کہا جاتا ہے اور اس نے اس گیس کا ایک سلنڈر ہوا میں پہنچانے والے نظام میں شامل کر کے یہ گیس عدالت میں چھوڑنے کا منصوبہ بنایا مگر وہ پکڑا گیا۔

بلوگ نے اسے عملی مذاق قراردیا اور معافی مانگ لی مگر جج اس سے محظوظ نہ ہوئے ، پہلی بار عدالت میں پیشی کے موقع پر بلوگ نے جج کی شدید توہین کی جس پر اسے 6ماہ قید کی سزا دی گئی۔اس سزا پر سخت نالاں مستغیث نے جج کو کہا ’’آپ خشک مزاج خود کار مشین ہیں، خود کونقصان کیوں نہیں پہنچاتے؟ اس پر جج مسکرا دیئے مگر اُنہوں نے کوئی ایکشن نہ لیا۔1968ء کے ریگینا بنام پولیس کمشنر کیس میں لارڈ ڈیننگ نے رائے دی ’’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے وقار کو اُجاگر کرنے کے لئے اس اختیار کو استعمال نہیں کر سکتے، اس کا انحصار بنیادوں پرہے، نہ ہی ہم اس اختیار کو ان لوگوں کو دبانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جو ہمارے خلاف بولتے ہیں، ہمیں تنقید کاخوف نہیں اور نہ اس سے ہم خفا ہوتے ہیں، اس لئے ایک اہم چیز دائو پر لگ سکتی ہے جو اظہار رائے کی آزادی ہے، بات یہ ہے کہ جو ہم پر تنقید کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ فرائض کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ ہم اس تنقید کا جواب نہیں دے سکتے ، ہم عوامی سطح پر تنازع میں نہیں پڑ سکتے، ہمیں اپنے رویہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو تسلیم کرانا ہوتا ہے۔‘‘ ’’جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ کی ریسرچ میں سامنے آیا کہ ہر ملک میں دو قسم کی توہین عدالت ہوتی ہے ، ایک تو عدالتوں میں قانونی حکام سخت اور توہین پر اُتر آتے ہیں اوردوسرے جان بوجھ کر عدالتی اَحکاما ت پر عمل نہیں کیا جاتا۔

جج یا ججوں کی مقدمات کی سماعت کے دوران توہین ، سماعت کے دوران بُرا یا توہین آمیز رویہ یا کوئی مواد جاری کرنا یا کوئی ضروری مواد افشاء نہ کرنا، یہ تمام ایسے توہین کے زمرے میں آنے والے اَقدامات ہیں جن سے منصفانہ  ٹرائل سبوتاژ ہو جاتا ہے۔دنیا بھر میں جج کئی عشروں سے اس قسم کے معاملات میں جرمانے یا لوگوں کو جیل بھیجتے  رہے ہیں تاہم ایسا بہت کم ہوا کہ کسی شخص کو ایک بار وارننگ دئیے بغیر ہی اس پر فرد جرم لگا کر اسے سزا سنا دی گئی ہو۔بھارت میں توہین عدالت دو قسم کی ہے:سول توہین: توہین عدالت ایکٹ 1971ء کے سیکشن 2(بی)میں سول توہین کی تعریف کی گئی ہے جس کے مطابق اس کا اطلاق  کسی فیصلے، ڈگری، ہدایت، حکم ، رٹ یا کسی عدالتی عمل یا عدالت میں کرائی گئی کسی یقین دہانی کی خلاف ورزی اورجان بوجھ کر عمل نہ کرنے پرہوتا  ہے۔

کریمنل توہین: توہین عدالت ایکٹ 1971ء کے سیکشن 2(سی) میں کریمنل توہین کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کا اطلاق کسی اشاعت ( چاہے  الفاظ، بول یا تحریر یا اشارے یا کسی اور طور پر ہو) یا کوئی ایسا اقدام جس سے کسی طرح بھی انصاف کی فراہمی کو سیکنڈ لائنزکیا یا کرنے کوشش، اختیار کی توہین، عدالتی عمل میں مداخلت یا ایسی کوشش، اور رکاوٹ ڈالنے پر ہوگا۔توہین عدالت کی کارروائی میں دفاع کی اجازت:توعین عدالت ایکٹ 1971ء کے سیکشن13 میں حال ہی میں 2006ء میں نئی کلاز (بی) متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت توہین کی سچائی کے حوالے سے ملزم آواز اٹھا سکتا ہے، تاہم عدالت اگر مطمئن ہو کہ یہ عوامی مفاد میں ہے اور درخواست صفائی ایمانداری سے دی گئی ہے، تاہم کوئی عدالت اس ایکٹ کے تحت اس وقت تک سزا نہیں دے سکتی ہے جب تک کہ وہ مطمئن ہو کہ اس توہین سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی اور مداخلت کی گئی ہے۔

انگلینڈ اور ویلز:برطانیہ میں توہین( توہین عدالت ایکٹ1981ء) کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 2 سال ہے، عدالتی کارروائی کے دوران جج یا مجسٹریٹوں سے توہین آمیز ، بے نظمی یا گستاخانہ رویے ، جس سے ٹرائل کی راہ کسی اور عدالتی کارروائی میں مداخلت کی یا اس کی کوشش کی جائے تو یہ ’’براہ راست ‘‘ توہین ہوگی۔’’براہ راست‘‘ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ عدالت خود ریکارڈ پر آنے والے اس شخص کے رویے کا خود جائزہ لے گی۔براہ راست توہین، بالواسطہ توہین سے مختلف ہے جس میں کوئی شخص دوسرے کے خلاف جان بوجھ کر عدالتی حکم سے انحراف پر تحریری درخواست دیتا ہے۔

فوجداری  توہین عدالت:برطانوی کرائون کورٹ کو عدالتی احکام کوناماننےیا امور میں رخنہ اندازی پرتوہین عدالت پرسزا کااختیار ہے۔جہاں ضروری ہو جج( حتیٰ کہ ٹرائل جج) توہین عدالت پر سزادےسکتاہے۔فوجداری  توہین عدالت:برطانوی کرائون کورٹ کو عدالتی احکام کوناماننےیا امور میں رخنہ اندازی پرتوہین عدالت پرسزا کااختیار ہے۔جہاں ضروری ہو جج( حتیٰ کہ ٹرائل جج) توہین عدالت پر سزا دےسکتاہے۔جہاںاس قدرعجلت درکارنہ ہو یا بالواسطہ توہین کا ارتکاب کیا گیا ہوتواٹارنی جنرل مداخلت کرسکتا ہے اور کر ائون پراسیکیوشن سروس انگلینڈ اینڈ ویلز کی ہائیکورٹ آف جسٹس کے کوئنز بنچ ڈویژن کی ڈویژنل کورٹ کےروبرو انکےایما پر فوجداری کارروائی کا آغاز کریگی۔

تازہ ترین