• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

کراچی (تجزیہ: مظہر عباس) سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد سے بذریعہ گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ ریلی کے اغراض ومقاصد پر جہاں رائے عامہ منقسم ہے یہ یقیناً سیدھے سادے طور پر اسلام آباد سے گھر کو واپسی قرار دی جا سکتی ہے۔

یہ اپنا وقار بحال کرنے کے ساتھ خصوصاً آئندہ عام انتخابات سے قبل اپنے ’’ووٹ بینک‘‘میں سیاست بھی ہے لیکن کیا انہی وجوہ سے ریلی نکالی گئی اور وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد نواز شریف نے ایک شکست خوردہ حیثیت سے آغاز سفر کیا اور جب وہ لاہور پہنچیں گے تو ان کی اہلیہ کلثوم ان کی نااہلی سے خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر رہی ہوں گی۔ نواز شریف کی ریلی پر سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے منقسم مؤقف نے رائے عامہ کو مزید الجھا دیا ہے۔

ا ن کی ریلی کا مقصد کیا تھا؟ عدالت عظمیٰ کو ہدف تنقید بنایا جس نے ان کے خلاف فیصلہ دیا وہ کس حد تک اپنی تنقید اور اس کی پشت پر وجوہ میں حق بجانب ہیں، نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف کی سیاست اور ریلی کا ان کے حامیوں نے خیرمقد م کیا تو مخالفین نے بھی برابر کی دلچسپی کے ساتھ اس کا مشاہدہ کیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ پارلیمانی سیاست میں ان کی واپسی مشکل ہے وقت گزرنے کے ساتھ ان کا لہجہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے جو ایسے وقت جب انتخابات قریب ہیں تشویش کی بات ہے ناقدین جانتے ہیں آج نواز شریف شاید پہلے جیسے مقبول نہ ہوں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں ’’زخمی شیر‘‘ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ ان کی ریلی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کم از کم آئندہ انتخابات تک اپنا تعلق جوڑے رکھیں اور مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی کو یقینی بنائیں اپنے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نواز شریف کا ردعمل فطری تھا۔

ایک ایسا شخص جو پاناما لیکس سے قبل 32برس سے ملکی سیاست میں مرکز نگاہ رہا جسے چوتھی بار وزیراعظم بننے کا مکمل یقین تھا اسے نہ صر ف اقتدار سے بیدخل کیا گیا بلکہ مجروح کیا گیا، تضحیک کی گئی اسے گاڈ فادر اور’’ سلین مافیا‘‘ کے القاب سے تک نوازاگیا۔ ایک کہنہ مشق اور جید سیاستدان کی حیثیت سے وہ جانتے ہیں کہ ان حوالوں اور فیصلوں کے عوام پر ممکنہ اثرات کیا مرتب ہو سکتے ہیں؟ خصوصاً ان کے حلقہ ہائے انتخاب یعنی تاجر ،کاروباری حضرات اور شہری متوسط طبقہ کیا اثرات قبول کر سکتا ہے؟ نواز شریف اگر خاموشی سے اپنے خلاف فیصلہ قبول کر کے مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈور اپنے بھائی شہباز شریف یا سینئر پارٹی رہنمائوں کے حوالے کر دیتے تو یہ سیدھی سی مسلم لیگ مائنس نواز ہو جاتی۔ لہٰذا قانونی جنگ ہارنے کے بعد انہوں نے ایک مشکل سیاسی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی اپنے حامیوں اور کارکنوں سے استدعا ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ قبول نہ کریں۔

دیکھا جائے تو یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے لیکن سیاسی طور پر دیکھا جائے تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیںکہ فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست صرف اسی فیصلہ ساز 5 رکنی بنچ میں ہی دائر ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کسی نے بھی فیصلہ خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ فیصلے پر عملدرآمد اور اسے قبول کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔

مثال کے طور پر حنا جیلانی کیس کے بعد ملک میں مارشل لا نہیں لگنا چاہئے تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو کیس اورظفر علی شاہ کیس میں دوبارہ مارشل لاء کو جواز فراہم کیا گیا۔ 1948سے 2007 تک ایسی کئ مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن یہ تمام باتیں نواز شریف کو سپریم کورٹ پر تنقید کا جواز فراہم نہیں کرتیں انہیں اب فیصلے سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے اپنے عوامی اجتماعات اور ریلیوں سے قطع نظر نواز شریف کو چاہئے وہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی فوج، عدلیہ اور منتظمہ کے درمیان سیاسی مکالمے جیسی تجویز پر پارلیمینٹ کو رہنمائی فراہم کریں۔

ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کو بھی اس مکالمے میں شریک کیا جائے، انہوں نے مشکل راستہ اختیار کیا ۔اول دل شکستہ کارکنوں اور ووٹرز کا حوصلہ بڑھانے اور دوسرے یہ بتانے کے لئے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹر نواز شریف کا ووٹر ہے۔ تیسرے وہ اپنے طاقت کے گڑھ وسطی پنجاب میں پارٹی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں نواز شریف جنوبی پنجاب جائیں گے۔ جہاں ان کی اصل حریف تحریک انصاف نے قدم جمائے ہیں۔

نیب ریفرنسز کے بعد نواز شریف اپنےا ورخاندان کوآئندہ پیش آنے والے خطرات سے مقابلے کیلئے اپنے ’’ووٹ بینک‘‘ کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ سنگین نتائج کی صورت کارکن رہنما اور ووٹرز یکجا اور متحد رہیں نواز شریف جانتے ہیں اگر وہ جی ٹی روڈ سے سفر اختیار نہ کرتے تو پارٹی رہنما اور منتخب ارکان دوسرے کیمپوں کا رخ کر سکتے ہیں جس کا چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ق) کو دلچسپی سے انتظار ہے نواز شریف کے پاس بیچنے کے لئے مظلومیت کےسوا کوئی کارڈ نہیں ہے۔ تاکہ ووٹ ن سے ق یا تحریک انصاف کو منتقل نہ ہو۔ این اے 120 میں ضمنی انتخاب سیاسی امتحان کی ابتدا ہو گی۔ 

تازہ ترین