• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد لاہور واپسی کا سفر ان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہیں دو مرتبہ پہلے بھی اقتدار سے علیحدہ ہونے یا علیحدہ کئے جانے کے باوجود اس طرح کے کسی احتجاج یا مظاہرے کی ضرورت پڑی ہو۔ اس طرح عملاً ان کی سیاسی زندگی کا دوسرا فیصلہ کن دور شروع ہورہا ہے، جس میں آنے والے حالات اور معاملات کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں اور یا پھر نیب اور دوسرے اداروں میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کارروائی کے لئے سامنے آنے والے ریفرنس وغیرہ کو کیسے Faceکرتے ہیں۔ اس حوالے سے اب تک مختلف مقامات پر ان کے خطابات کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں آنے والے دنوں میں حالات کی سنگینی کا احساس ہے مگر انہیں کوئی ایساراستہ نہیں مل رہا جس سے کسی طریقے سے بڑھتے ہوئے دبائو اور مشکل صورتحال سے نکلا جائے۔بہرحال یہ کام نواز شریف اور ان کی فیملی کا ہے اور وہ ہم سے زیادہ ’’گُر‘‘ جانتے ہیں کہ مشکل حالات کیسے ہینڈل کئے جاتے ہیں، مگر اس وقت جو بات ہم سب کے لئے باعث تشویش بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں پر موجودہ سیاسی سرگرمیوں کے منفی اثرات پڑرہے ہیںایک تو یہ کہ اگر صرف پنجاب کو دیکھا جائے تو یہاں سب سے زیادہ روزمرہ روزگاراور بزنس کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔ مجموعی طورپر ملک میں غیر ملکی سرمایہ سرکاری اور سرمایہ کاروں کی آمد روفت متاثر نظر آرہی ہے۔ اس میں ایک دخل ہماری پی آئی اے کا بھی ہے جس کی روز روز بڑھتی ہوئی ملکی و غیر ملکی پروازوں نے ملکی و غیر ملکی مسافروں کو پریشان کررکھا ہے۔ ایسے حالات میں نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چاہئے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈر کا اجلاس بلائیں، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں سے ملاقاتیں کریں اور انہیں اپنا اپنا کاروبار بحال رکھنے کے لئے بھرپور سپورٹ کا اعلان کریں، اگر وہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی کا سوچے بغیر یہ سوچیں کہ وہ20کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہیں تو اس سے ان کی عزت تکریم میں مزید اضافہ ہوگاجس طرح انہوں نے پہلی بار منصوبہ بندی کمیشن کو وزیر اعظم ہائوس کا حصہ بنایا اور پانی کی علیحدہ وزارت قائم کی ہے۔ یہ سوچ آج سے35،30سال پہلے ہوا کرتی تھی اس وقت منصوبہ بندی کمیشن وزیر اعظم کے ماتحت ایک با اختیار آفس ہوتا تھا اور پاکستان کو امداد دینے والے پریس کنسورشیم میں ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن پاکستانی وفد کی قیادت کیا کرتے تھے اور وزارت خزانہ کا وزارت منصوبہ بندی میں عملاً کوئی دخل نہیں ہوتا تھا لیکن پھر پندرہ بیس سال سے منصوبہ بندی کمیشن وزارت خزانہ کے ماتحت ہوا تو وہ گم ہی ہوگیا۔ نئے وزیر اعظم نے سب سے اچھا یہ کام کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن ان کی براہ راست نگرانی میں صرفCPECنہیں باقی شعبوں کے لئے کیا اقدامات کرتا ہے جس سے مسلم لیگ (ن) کو 2018کے الیکشن جیتنے میں کامیابی حاصل ہوسکے تاہم اس سے قبل وزیر اعظم عباسی چاروں صوبوں کے دورے کریں اور وہاں کی بزنس کمیونٹی کے مسائل سنیں، خاص کر زراعت اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے۔ اس سلسلے میں انہیں نئے وزیر تجارت پرویز ملک سے خاصی معاونت مل سکتی ہے جو خود ٹیکسٹائل بزنس سے منسلک ہیں۔ایسے وزرا سے مشاورت کے بعد اگر وہ معیشت کے مختلف شعبوں کے مسائل حل کرنا شروع کریں گے تو اس سے سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ(ن)اور میاں نواز شریف کو ہوگا ورنہ کچھ ہفتوں میں جس طرح کی صورتحال پیدا ہونے والی ہے اس میں شاید حکومت کے لئے اپنے کارڈز کھیلنے اتنے آسان نہ رہیں اور ملکی حالات اور موسم کوئی اور رخ ہی اختیار نہ کرلیں۔

تازہ ترین