• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد جی ٹی روڈپر عوامی عدالت لگانے، اس کا فیصلہ سنانے اور دکھانے کے بعد جاتی عمرہ میں واقع اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کتنے آدمی تھے ،حکمراں جماعت جی ٹی روڈ کے سفر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج یا کسی پاور شو کی بجائے سابق وزیر اعظم سے عوام کی والہانہ محبت کے اظہار سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کا جی ٹی روڈپر بریکیں لگانے اور اپنی ٹور( چال) دکھانے کا مقصد اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید کرنا اور انہیں نشانہ بنانا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے عوام کی طرف سے اظہار یک جہتی کے دوران جی ٹی روڈ پر اپنے مضبوط انتخابی حلقوں میں خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اس کے بعد بھی لیگی حلقوں کا یہ دعوی کہ یہ عدالت عظمی کے فیصلے خلاف احتجاج ہر گز نہیں ہے، آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے حامی سمجھتے ہیں بلکہ انہیں یقین ہے کہ جو کچھ ہوا یہ سازش ہے اور اس کے پس پردہ وہی نادیدہ ہاتھ ہیں جو گزشتہ ستر سال سے پاکستان میں پتلی تماشے کرانے میں ملوث رہے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا جبر ہی ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل سے لے کر میمو گیٹ تک جن پر خود کٹھ پتلی ہونے کا الزام عائد ہوتا رہا آج وہی نوحہ کناں ہیں۔ بقول شاعر…میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم…آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔
اقتدار کی شطرنج کے اس کھیل میں کبھی پیادے تو کبھی بادشاہ کے نام پر مہرہ بننے والے اب آزادی کے طلبگار ہیں لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ مہروں کی چال کا فیصلہ پھر بساط سجانے والا ہی کرتا ہے۔ آج کل ایک نئے عمرانی معاہدے کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے اور نواز شریف کے بعد چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے بھی اسی طرف پیش رفت کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس اہم معاملے پر آئندہ کسی تحریر میں تفصیلی روشنی ڈالوں گا فی الوقت اتنا ہی عرض ہے کہ مکاملہ تب ہوتا ہے جب تمام فریقین ہم پلہ ہوں، معاہدہ تب ہوتا ہے جب آمنے سامنے والوں کو ایک دوسرے کی طاقت کا درست اندازہ نا ہو،کبھی کسی طاقت ور نے کسی کمزور سے معاہدہ کیا ہے، کبھی کسی دیو ہیکل پہلوان نے کسی ناتواں سے ہاتھ ملایا ہے،کبھی کسی جیتنے والے فریق نے ہارنے والے کی شرائط تسلیم کی ہیں، میاں محمد بخش کہتے ہیں کہ… لسے دا کی زور محمد… نس جانا یا رونا۔
ابھی توسپریم کورٹ کے فیصلے پرحکمران جماعت کے اسی رد عمل کا ذکر جس میں چوہدری نثارجیسا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے، جس میں بیٹی نے والد محترم کے گھر بھیجے جانے کے بعد بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے شدید احتجاج کرنے سے گریز نہیں کیا اور جس میں چھوٹے بھائی کی اہلیہ بھی ہوش کا مظاہرہ کرنے کا درس دے۔ یہ بظاہر بہت عجیب لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز ایک متفقہ فیصلے کے تحت ( آئینی اور قانونی لحاظ سے اس کی مضبوطی یا کمزری اپنی جگہ) قرار دید یں کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں ہیں اس لئے وہ وزارت عظمی کے منصب کیلئے نا اہل قرار دئیے جاتے ہیں تو حکمراں جماعت اس فیصلے کے خلاف آئینی اور قانونی جنگ لڑنیکی بجائے چوکوں اور چوراہوں میں عوامی عدالت لگا کر اسے مسترد کر دے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسی نظیر کم ہی ملتی ہو گی کہ آئینی عدالت کے فیصلے کو عوام کی عدالت میں چیلنج کیا جائے لیکن پاکستان جیسے ملک میں ایسا رد عمل اوریک جہتی کے نام پر ایسا احتجاج کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جس ملک میں قانون کے تحفظ اور آئین کی بالا دستی کا دم بھرنے والے وکلا ہائیکورٹ ملتان بنچ کے معزز جج قاسم خان سے بدتمیزی کریں اور پھر سینہ زوری کرتے ہوئے انکے نام کی تختی اتار کر پائوں تلے روندیں، اس وکلا گردی کا نوٹس لینے والے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب منصور علی شاہ کے خلاف بھی نعرے بازی کریں، انکی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بنچ کو کام کرنے سے روک دیں،عدالتوں کی تالہ بندی کر کے ہڑتال کردیں ، توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں مس کنڈکٹ کے مرتکب ہائی کورٹ بار ایسوسی ایسشن کے صدر بار بار طلبی کے باوجود پیش ہوں اور نہ ہی عدالت عالیہ اور اس کے سینئر ججز کو کوئی اہمیت دیں،ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دیں ،عدالت عالیہ اور معزز ججوں کے ساتھ کھڑے ہونے والی عاصمہ جہانگیراور سلمان اکرم راجہ جیسے اصول پرست وکلاکو بھی مطمعون کریں، پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسلز کی ہائی کورٹ کو کرائی گئی یقین دہانیوں کا بھی پاس نہ کریں ،خود کو ہر قانون سے بالا سمجھیں ،کالے کوٹ پر خود کالک مل دیں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف احتجاج کریں وہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف عوامی طاقت کا مظاہرہ معمول کی بات ہے۔ جس ملک میں مسیحا ہی درد دینے لگیں ، اپنے حقوق کے تحفظ کے نام پر فرائض کی ادائیگی بھول جائیں،مریض ان کے سامنے تڑپتے،ایڑیاں رگڑ کر مرتے رہیں لیکن خود کو ینگ ڈاکٹر کہلوانے والے اپنے حلف کے ساتھ انسانیت کا درس بھی بھول جائیں، دم توڑتے مریضوں کے لواحقین کی دہائیاں بھی ان کا ضمیر نہ جنجھوڑ سکیں،جس ریاست نے انہیں سفید اوور کوٹ پہنانے کیلئے ان پر فی کس تیس سے پینتیس لاکھ روپے خرچ کئے ہوں اسی کے احکامات کی بجا آوری سے انکار کر دیں، جن سینئرز نے انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا ہو ان کے گریبانوں پرہاتھ ڈالنے سے بھی نا چوکیں، جس جگہ سے روزی روٹی مل رہی ہو وہیں توڑ پھوڑ کرنے سے بھی نہ ہچکچائیں،اگر ریاست اپنی رٹ بحال کرنے کی کوشش کرے توانتظامی اقدامات کو ظلم قرار دے کر اس کیخلاف احتجاج شروع کر دیا جائے، بلیک میل نہ ہونے اور نئے ڈاکٹرز کی بھرتیاں کرنے والے حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے الزامات عائد کر دئیے جائیں، ایمرجنسی اور آوٹ ڈور کو تالے لگا دئیے جائیں، طبی امداد کے لیب کے مریضوں اور انکے مجبورلواحقین کو دھتکارا جائے ، اس ’’غنڈہ گردی‘‘ کی جھلک دکھانے والے میڈیا کے نمائندوں پرتشدد کیا جائے اور ڈاکٹروں کے لبادے میں چھپے ہوئے ظالم کا روپ دھارنے والی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسے پر امن احتجاج قرار دے تو اس ملک میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والا گھر بھیجے جانے پر کیسے خاموش بیٹھ سکتا ہے۔ جس ملک میں آئل ٹینکر سے بہنے والے پٹرول سے لمحوں میں سوا دوسو انسان زندہ جل جائیں، اس قیامت صغریٰ برپا کرنے کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہ ہو اور جب حکومت آئل ٹینکرز کیلئے حفاظتی اقدامات کا اعلان کرے تو آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن احتجاجا ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل بند کر دے، ٹینکروں کا پہیہ جام کر دیا جائے۔ حکومت کو بلیک میل کر کے سڑکوں پر موت کا رقص جاری رکھنے کی یقین دہانی لے لی جائے، جس ملک میں جعلی ادویات کے نام پر موت کا کاروبار کیا جائے، زندگی کے نام پر موت بانٹنے والی ان فیکٹریوں پر چھاپے مارے اور انہیں سیل کر دیا جائے تو موت کے یہ سوداگر احتجاج شروع کر دیں ،جس ملک میں دودھ کے نام پر زہر فروخت کیا جائے، گھی کی تیاری میں مردار جانوروں کی چربی استعمال کی جائے، بکرے اور بچھڑے کے نام پر گدھے اور نہ جانے کس کس جانور کا گوشت بیچا جائے،ایسے سماج دشمن عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے تو وہ ہڑتال کی دھمکیاں دیں، جس ملک میں تعلیم کے نام پر تجارت کی جائے، بھاری فیسیں دیکر ادھ موئے ہوئے والدین دہائیاں دیں اور حکومت راست اقدمات کرنے کی کوشش کرے تو تعلیم کی آڑ میں کاروبار کرنے والے احتجاج پر اتر آئیں۔ اور تو اور جس ملک میں کچے کے علاقے کے ڈاکو اس بات پر پولیس کیخلاف احتجاج کریں کہ بے شک دھندے میں مندا ہی چل رہا ہو لیکن پولیس ان سے ’’اچھے دنوں‘‘ کی شرح سے ہی ماہانہ بھتہ وصول کرتی ہے تو ایسے ملک میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے متفقہ فیصلے کے خلاف احتجاج بھی ہو تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ واقعی کیا ملک ہے‘‘۔

تازہ ترین