• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار سے الگ ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر بذریعہ جی ٹی روڈ چار روز میں مکمل کیا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ مشورہ کس کا تھا یا ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ بہرحال ماہرین سیاسیات کی مختلف آراء ہیں کہ یہ سفر اچھا تھا یا برا ، اس کا اندازہ تو آنے والے چند ہفتوں میں ہوگا مگر ہم تو یہاں چند ایک گزارشات کریں گے جو یقیناً میاں صاحب کی طبیعت پر گراں نہیں گزریں گی۔
ہمارے ملک میں غریبوں کے لئے سب سے پہلانعرہ ہائے مستانہ’’روٹی،کپڑا ا ور مکان‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایااور غریب دیوانہ وار اس نعرے کے پیچھے چل پڑے۔ اس کے بعد نہ لوگوں کو روٹی ملی ، نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔عوام کو روٹی ،روٹی پلانٹ سے کھلائی گئی بعد میں وہ روٹی پلانٹ کوڑیوں کے بھائو فروخت ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) نےسستی روٹی کا نعرہ لگایا بعد میںوہ سستے تندور اور سستی روٹی سب کچھ غائب ہوگیا۔ بھٹو کا طلسم سر چڑھ کر بولتا رہا ۔وہ عوامی لیڈر اس لئے کہلائےکیونکہ اس نے جس انداز میں جلسے کئے اس طرح کے جلسے کوئی نہیں کرسکتا، لیکن اس ملک میں لیبر اور ا سٹوڈنٹس دونوں کو خراب کیا۔ ایوب خان کے دور حکومت تک تمام ادارے پی آئی اے، ریلوے غرض ہر ادارہ منافع بخش تھا بھٹونے انقلاب کا نعرہ لگایا اس کے بعد ان قومی اداروں کی ایسی تباہی شروع ہوئی جو آج تک جارہی ہے۔ پی آئی اے خسارے میں، ریلوےخسارے میں، اسٹیل ملز کا بیڑہ غرق،ہر ادارے میں یونین بازی۔ ہر یونین نے مزدوروں کے حقوق کی بات کی مگر مزدور کو کیا ملا؟یہ بھی ایک لمبی بحث ہے۔ اب بڑے میاں صاحب انقلاب کی بات کررہے ہیں تو حضور والا انقلاب کس کے خلاف لانا چاہتے ہیں۔ مرکز میں ساڑھے چار سال آپ کی حکومت رہی اور اب بھی آپ کی جماعت کی حکومت ہے۔ صوبہ پنجاب میں برس ہا برس سے آپ کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں آپ کی حکومت، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آپ کی حکومت ہے تو پھر انقلاب کس کے خلاف؟ آپ نے فرمایا کہ سسٹم کو درست کریں گے تو جناب اگر آپ ساڑھے چار سال میں بھی سسٹم کو درست نہ کرپائے تو اس کا ذمہ دار کون؟آپ جب جدہ سے آئے تھے تو آپ نے عوام سے کئی وعدے کئے تھے صرف ا س زمانے کے اخبارات اور ویویوز دیکھ لیں۔
اس ملک کے عوام کو کس کس نے سبزباغ نہیں دکھائے؟1977کی بھٹو کے خلاف تحریک صرف اسلامی نظام کے نعرے پر کامیاب ہوئی۔ الیکشن میں دھاندلی تو ہوئی تھی مگر قومی اتحاد کا نعرہ اسلام کو نافذ کرنے کے حوالے سے لگایا گیا تھا ۔ آج تک ہم سود کا نظام ختم نہیں کرسکے لوگ اس سودی نظام کے تحت تباہ و برباد ہوگئے۔ وہ لوگ جنہوںنے بینکوں سے قرضہ لے کر اپنے گھر بنائے اور کاروبار کئے ،انہوں نے اصل زر سے زیادہ سود ہی ادا کیا۔ آپ نے اچھے بھلے چلتے ہوئے بینک کے اےایس پی کو جس طرح فروخت کیا وہ تاریخ کا بدترین واقعہ ہے جس پر آج تک ٹی وی چینلزپر پروگرام ہورہے ہیں۔ اسحاق ڈار جب بھی وزیر خزانہ بنتے ہیں عوام کو ہمیشہ تکلیف دیتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر آج تک لوگ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات نہ پاسکے۔ بجلی ہے نہیں اور بل ڈبل۔ اس ملک میں اب واضح دو کلاسیں ہیں،ایک ایلیٹ کلاس اور دوسری غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی کلاس۔ تعلیم یافتہ طبقے کی بے قدری یہاں تک کہ جن کالجوں میں کالج فنڈز پر ایم اے / ایم ایس سی اور ایم فل لڑکے اور لڑکیاں بطور لیکچرار رکھے جاتے ہیں ان کو صرف17ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے اور ہر 99دنوں کے بعد ان کا کنٹریکٹ ختم کرکے نیا کنٹریکٹ دیا جاتا ہے۔ انہیں ان اداروں میں پڑھانے کا کوئی تجربے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاتا آپ نے عوام کو کیا دیا؟ آپ عوام سے کس قسم کے وعدے لے رہے ہیں؟ بڑے میاں صاحب! انسان ان پوسٹروں، بینرز ، بڑے بڑے بل بورڈز اور خوبصورت نعروں پر کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ پاکیزہ ہستیاں ہمیشہ زندہ ر ہتی ہیں اور زندہ ہیں ان کی خدمات ہمیشہ سے زندہ ہیں انہوں نے کوئی پوسٹرز نہیں لگوائے تھے انہوں نے شہر اور گائوں گائوں جاکر منادی نہیں کرائی تھی۔ ان کے مزارات آج بھی رشد ہدایت اور روشنی کے مینار ہیں۔ حضرت علی ہجویریؒ ،حضرت میاں میر ؒ، حضرت شاہ جمال ؒ، حضرت پیر مکی ؒ، حضرت شہباز قلندر ؒ، حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر ؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ، حضرت شاہ رکن عالم ؒ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ، حضرت شاہ شمس تبریز،ؒ حضرت بہائوالدین ذکریا ؒ اور ہزاروں شمع توحید کےپروانے اس برصغیر میں تشریف لائے۔ خود کو فنا کرکے ہمیشہ کی بقا ءکی روشنی کے سفیر بن گئے۔ ان کی زندگیاں اقتدار کی ہوس اور دنیا کی حرص سے ماوراء تھیں۔انہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور اس کے حبیب پاکﷺ کے مشن کو اپنی زندگی کا محور بنائے رکھا۔ آج بھی ان مزارات پر نور اور روشنی کے ایسے انمٹ مینار ہیں جو تاقیامت رہیں گے۔
میاں صاحب کاش! آپ بھی سادہ زندگی بسر کرتے ، کاش!آپ کے قول و فعل میں تضاد نہ ہوتا، کاش! آپ ہر بات دل سےکرتے تو یقین کریں رہتی دنیا تک آپ کے تذکرے ہوتے۔ آپ نے کہا کہ مظلوم کی مدد کرو گے؟آج آپ اس عوام سے مدد مانگ رہے ہیں جو بے چاری خود بھوک و افلاس میں گھر چکے ہیں، جو غذائی کمی کا شکار ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے ہیں، عوام تو خود مظلوم ہوچکی ہے۔ ہماری بات کا برا نہ منائیے گا جناب والاآپ اور آپ کے ساتھی جن حلقوں سے غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں آپ وہاں کے نلکوں کا پانی نہیں پی سکتے، ان گلیوں اور بازاروں میں تیار ہونے والی خوراک نہیں کھاسکتے، آپ ان محلوں اور گلیوں میں ایک رات بسر نہیں کرسکتے، آپ کہتے ہیں کہ وائرس زدہ نظام ا ور آئین بدلنا ہوگا آپ خود تین مرتبہ اقتدار میں رہے پنجاب میں برسوں سے اقتدار میں ہیں تو پھر وائرس زدہ نظام آپ نے کیوں نہیں تبدیل کیا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ اقتدار میں رہتے تو تب یہ نظام وائرس زدہ نہ ہوتا تب آئین تبدیل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔
آپ کے قافلے کی نذر دو زندگیاں ہوگئیں اور آپ کے رشتہ داور وزراء کہتے ہیں کہ حامد قافلہ جمہوریت کا شہید ہے۔ کیا ملک میں کسی اور جماعت کی حکمرانی آگئی ہے اور جمہوریت ڈی ریل ہوگئی ہے؟ خدارا ایسی باتیں نہ کریں جس سے مذاق بھی بنے اور اس معصوم بچے کے گھروالوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے آخر کیوں بند کمرے میں حامد کے باپ سے سرکاری لوگ مذاکرات کرتے رہے؟ میاں صاحب پنجاب میں تیرہ روز سے ڈاکٹروں کی ہڑتال جاری ہے آپ نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ مختلف خبروں کے مطابق اب تک چالیس سے زائد افراد سرکاری اسپتالوں میں علاج نہ ملنے پر مرگئے۔ آپ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں کیا علاج دینا سرکار کی ذمہ داری نہیں؟ آپ نے اپنی تقریروں میں غریب عوام کے حقوق کی بات کی آج یہ غریب علاج سے محروم ہیں اور آپ کی طرف سے خاموشی ہے۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں پی آئی اے تباہ، ریلوے کا نظام درست نہیں۔ ادارے تباہ و برباد ہر جگہ رشوت، یہ کمایا ہم نے ستر برس میں ۔ وائرس زدہ نظام کی وجہ سے مریض تیرہ روز سے خوار ہورہے ہیں اس وائرس پر پھر کبھی بات کریں گے۔

تازہ ترین