• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی بحرانوں، لوڈشیڈنگ کے اندھیروں، انتہا پسند سوچوں سمیت بے شمار چینلجز اور مشکلات میں گھرے، امن اور امان کی راہ تکتے پاکستانیوں نے بھرپور جوش جذبے سے وطن عزیز کی 70ویں آزادی کا دن منایا، اسی اثنا جمہوری پاکستان میں نئے آئین، انقلاب اور نئے پاکستان کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، یہ نعرہ اس شخص کے منہ سے سنائی دے رہا ہے جو خود تین دہائیوں سے زائد مدت تک اقتدار میں رہا، کچھ لوگ شک کر رہے ہیں کہ کہیں یہ انقلاب وہی تو نہیں جس کا خواب کینیڈین نیشنل علامہ ہر سال دیکھتے ہیں، پھر عازم سفر ہو جاتے ہیں، کہیں یہ نئے پاکستان کی تعبیر وہی تو نہیں جو ہم نے 2014 اور 2016 میں ملک کا نظم نسق چوک ہوتے دیکھی جس میں سی پیک اور معاشی ترقی کا پہیہ پنکچر کر دیا گیا۔ یہ نئے آئین کی بات کیوں کی جارہی ہے جب پہلے متفقہ آئین میں سب کچھ لکھا ہے مگر اس پرعمل کرنا کوئی گوارا نہیں کرتا، نئے بین الادارہ جاتی ڈائیلاگ کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے، سادہ سا سوال ہے کہ کیوں؟ آئین کے تمام آرٹیکلز اور سپریم کورٹ کی تشریحات سب اداروں کا دائرہ کار، کام کا طریقہ کار، حدود وقیود اور باہمی تعاون کے امور کو مکمل واضح کرتی ہیں، دلیل مان بھی لی جائے تو جو کبھی ایک نکتے پر متفق ہو بھی جائیں تو اس میں اتنے ’’کالے‘‘ نکالتے ہیں کہ پوری دال ہی کالی ہو جاتی ہے، سوال تو یہ بھی ہے کہ جس معزز ادارے سے دو ادارے اپنی طاقت اخذ کرتے ہیں وہ مل کر اسی کو گرا دیتے ہیں یا دونوں خود اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ اپنے اداروں کے سربراہوں کو ہٹانے کی مجال نہیں ہوتی لیکن عوامی طاقت کا سرچشمہ پارلیمان کے قائد کو ایک اشارے سے نکال باہر کرتے ہیں، یہ بھی بات مضحکہ خیز ہے کہ اب نیا نظام وہ لائیں گے جو آج تک خود کبھی ایک نظام پر یک زبان نہیں ہوئے بلکہ اپنے اقتدار کی خاطر عوام کو محض خواب دکھاتے رہے ہیں؟ ان کی مہربانیوں سے عوام کا حال بقول شاعر یہی ہے کہ ’’نہ بات پوری ہوئی تھی کہ رات ٹوٹ گئی، ادھورے خواب کی آدھی سزا میں جیتے ہیں۔‘‘
میاں صاحب بالاآخر نااہلی کے فیصلے پر عمل کر کے اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ رائےونڈ پہنچ گئے، لیکن راستے بھر بار بار پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ بھلا سادہ لوح بے چارے عوام کو کیا پتہ کہ آپ کو کیوں نکالا؟ اس سوال کا جواب تو ہمارے ساتھ کئی نشستوں میں کئے گئے وعدے کے مطابق آپ کو دینا تھا، بقول آپ کے، آپ کو سب معلوم ہے تو توقع تھی کہ آپ عوام سے براہ راست اپنے جذبات کا اظہار کریں گے اور سب رازوں سے پردہ اٹھا دیں گے، مگر سب ہی انتظار کرتے رہ گئے، داتا کی نگری پہنچ کر جوش خطابت میں آپ نے نیا بیانیہ ضرور دے دیا، کہ آپ انقلاب، نیا پاکستان اور نیا آئین بنانا چاہتے ہیں، بات کرتے کرتے جناب رضا ربانی کی موجودہ نظام کے تحت اداروں کے درمیان مذاکرات کی تجویز کی تائید وحمایت بھی کر گئے، اب اسے محض اتفاق، جلد بازی یا کیا کہا جائے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ چوٹ لگی ہو تو کچھ دیر زخم سہلانے اور خود کو سنبھالنے میں لگتا ہے تب ہی زخم خوردہ کسی ردعمل کے قابل ہو پاتا ہے، لیکن آپ کو تو جلدی ہے بدلہ چکانے کی مگر کیسے؟ میں نے توایک گزشتہ کالم میں ’’گارڈ فادر‘‘ کا مشورہ بھی آپ تک پہنچایا تھاRevenge is dish best served cold.
آپ نے تو چھوٹے بھائی سمیت تمام دیرینہ سینئر ساتھیوں کی پندونصاح کو بھی بالائے طاق رکھا اور جی ٹی روڈ ایکسرسائز کو غم و غصے کے اظہار کے لئے استعمال کیا، ن لیگ کا یہ خیال بجا کہ نوازشریف محض عوام کا شکریہ ادا کرنے نکلے لیکن آپ کے بعض قریبی ساتھی اور ناقدین کہتے ہیں کہ دراصل یہ مزید کیسز کی تحقیقات و سزا سے بچنے کی مشق اور کسی نئی آفر سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
قارئین کرام، اگر یہ بات مان بھی لیا جائے کہ ’’طاقتوروں‘‘ نے جمہوری اداروں کو چلنے نہیں دیا،70برسوں میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا تو سوال یہ ہے کہ ان کو نکالے جانے کی وجوہ کرپشن ہی کیوں بنتی ہے کیا باقی ادارے پوتر ہیں؟ میاں صاحب فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ووٹوں کی تذلیل کی بات کرتے ہیں لیکن ماضی میں جھانکیں تو جوڑ توڑ اور غیر جمہوری رویوں کی بو آئے گی، اس کو نظرانداز کر بھی دیا جائے تو آپ نے حالیہ چار برسوں میں جو کچھ حزب اختلاف کی جماعتوں بالخصوص فرینڈلی اپوزیشن پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا، پارلے منٹ کو نظر انداز کیا۔ اپنے اراکین پارلے منٹ، وزراء اور اداروں کے ساتھ جو معاندانہ رویہ رکھا اور اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے جو ’’حلیف‘‘ بنائے، اس کے بعد کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی تھی، موجودہ حالات تک پہنچنے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں آمر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ و سزا دلوانے کی خواہش، بھارت کے ساتھ یکطرفہ محبت کی پینگیں، سی پیک کا کریڈٹ لینا، شدت پسندوں سے جنگ کی بجائے مذاکرات کی حکمت عملی اور کئی قومی امور پر پالیسی اختلافات شامل ہیں، لیکن بار بار تصادم کی وجوہ کا در پردہ ایک ’’راز‘‘ مجھے بھی معلوم ہے جس کی تفصیلات جلد ضبط تحریر میں لائوں گا، ابھی محض اتنا کہوں گا کہ1999کے مشرف کو کے بعد مبینہ سلوک کو آپ ابھی تک نہیں بھولے اور اس شدید رنج، غصے اور نفرت کی آگ نے آپ کو کبھی قرار نہیں لینے دیا اور اسی وجہ سے آپ کے قومی مفاد میں اٹھائے جانے والے اکثر اقدامات ’’انہیں‘‘ کسی صورت قابل قبول نہیں ہوتے۔
بعض حلقے یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ آپ کی لیگل ٹیم نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر بھی تذبذب کا شکار ہے اور اس کے متوقع نتیجے سے آپ کو آگاہ کرچکی ہے، آپ کی واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے تو پھر آپ کے پاس آپشنز کیا ہیں؟ سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کسی نظام کے لئے لازم یا ناگزیر نہیں ہوتا، آپ نے طاقتور کندھوں اور عوامی مینڈیٹ سے طویل اقتدار دیکھا ہے، اب بھی اقتدار کا سورج محض آپ کی ذات پر غروب ہوا ہے لیکن بلواسطہ اقتدار آپ کے ہی پاس ہے، آپ پہلے مرحلے میں پارٹی کو مجتمع رکھنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ خود کو ایک نئے صبح کی آغاز کے لئے نئے کردار میں ڈھالیں، اعلیٰ عدلیہ کے بخشے گئے ’’گارڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کے اعزاز پر آپ پورا نہیں اترتے لہٰذا اب آپ کوڈون(DON) نہیں بلکہ ڈان (DAWN)بننا ہے، نئے غیر متنازع کردار سے نئے سیاسی سفر کا آغاز کرنا ہے، موجودہ جمہوری وسیاسی نظام کی پختگی کے لئے نئی جدوجہد کی شروعات کرنا ہے، عوام کے جمہوری نظام پراعتماد واعتقاد کی بحالی کے لئے اپنی جماعت سے خود احتسابی کا عمل شروع کرناہے، موجودہ نظام کی خرابیاں دور کرنے کے لئے کمربستہ ہونا ہے، وزیراعظم آپ کا ہے اور چھوٹا بھائی بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ، خدارا نئے آئین، نئے پاکستان اور انقلاب کی غیر مرئی، غیرحقیقی اور خیالی باتوں میں خود اور قوم کو نہ الجھائیں،70 برسوں سے اب تک کئی شعبدہ باز اور اسٹیج سجاتے رہے ہیں اور یہ کھیل اب بھی جاری ہے آپ اس کا حصہ نہ بنیں، ایک مرتبہ کیوبا کے مقبول عوامی رہ نما فیڈرل کاسترو نے کہا تھاit's not bed of roses, revolution is a struggle between past and future.عوام کا آپ پر بھاری قرض ہے اور جاننا چاہتے ہیں کہ آزادی کے اکہتر ویں برس کی آزاد اور خودمختار صبح کا آغاز آپ کب کریں گے؟ کیا آپ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی روشن تعبیر اور کسی مفاد کے بنا قومی رہ نما بنیں گے، مایوسیوں کے اندھیرے مٹائیں گے، بجلی، گیس، پانی کے علاوہ صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے مستعد ہوجائیں گے، معاشی خوشحالی، بے روزگاری کے خاتمے اور امن کے استحکام کے لئے اداروں کو مضبوط بنائیں گے، تمام جمہوری طاقتوں کو اکٹھا کریں گے، حقیقی انصاف پر مبنی سماجی نظام کے قیام اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کریں گے، عوام کو حقوق کا شعور دے کر خوشحال جمہوری نظام کی منزلوں سے روشناس کرائیں گے،، کہتے ہیں کہ مشکل وقت تو گزر جاتا ہے لیکن ان لمحات میں کئے گئے مشکل فیصلے قوموں کی بقا کے لئے امر ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین