• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 پاکستان ان چند بدقسمت ملکوں میں سے ایک ہے جہاں تعلیم کا معیار بڑھنے کے بجائے روز بہ روز گرتا جا رہا ہے اور عام لوگوں میں اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اپنے بچّوں کو تعلیم دینے کے بجائے چھوٹی عمر سے ہی کاموں میں لگا کر روزگار حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے یعنی نئی نسل کو تعلیم دینے کے بجائے ان سے پیسے کمانے کا کام لیا جا رہا ہے، کسی قوم کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ظالم والدین پیسے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ہم پر چائلڈ لیبر کا الزام لگا کر ہماری ایکسپورٹ ختم کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ ہماری حکومتوں نے آج تک تعلیم کیلئے کچھ نہیں کیا، نہ شہروں میں بڑے بڑے اسکول کھولے اور نہ ہی نئی یونی ورسٹیاں، کالج بنائے، سب سے غلط کام پی پی پی کی پہلی حکومت کے دوران ہوا جب تمام تعلیمی درس گاہوں کو قومیا لیا گیا اور پاکستانی قوم کو تعلیمی میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا گیا پھر تعلیم کا قتل عام شروع ہوا۔ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا مزاج بھی سرکاری ہو گیا۔ اساتذہ بھی سرکاری ملازم ہو گئے۔ یہی اساتذہ جب نجی اداروں کے ماتحت تھے اس وقت وہ دن، رات محنت کر کے اچھے طالبعلم فراہم کر تے تھے اور اپنے اپنے اسکولوں اور کالجوں کا نام پیدا کرتے تھے۔ اساتذہ کی بہت عزت تھی اور طالبعلم سوائے چند کے با ادب اور ہنرمند ہوتے تھے۔ انہیں تعلیم سے بے حد لگائو تھا، اپنے اپنے حلقۂ احباب میں وہ نیک اور شریف تعلیم کے ہی حوالے سے جانے جاتے تھے، خاص طور پر اسکولوں میں ڈسپلن ہوتا تھا۔ شرارتیں اپنی جگہ مگر تعلیم کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ امتحانوں کے دنوں میں اساتذہ کمزور طالبعلموں کو رات گئے پڑھاتے تھے اور اسی طرح طالبعلم بھی دلچسپی اور انہماک سے امتحان کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے تھے۔ ایک دوسرے سے نوٹس کے تبادلے اور پوری پوری رات امتحانات کی تیاریاں کرتے، کھانے، پینے تک سے غافل ہو جاتے تھے اچھے نمبر حاصل کرنے کیلئے سب بھول جاتے تھے ۔ واقعی تعلیمی معیار روز بہ روز بڑھ رہا تھا کہ یکایک تعلیم کو نظر لگ گئی۔ بعض بڑے بڑے نامور نجی تعلیمی ادارے بہ یک جنبش قلم نجی سے سرکاری ہو گئے اور وہی حال ہوا جو ہر سرکاری ادارے کا ہوتا ہے۔ اب امتحانات کے پرچے بھی آئوٹ ہونے لگے ہیں اور پیسے لے کر امتحانات پاس کرانے کا چلن بھی اس دور میں عام ہے۔ تعلیم نہیں کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں گھپلے روزمرّہ کا معمول بن گئے ہیں۔ بعض اساتذہ، پرنسپل سب اس میں رچ بس گئے۔ دوسری طرف طالبعلم بھی تعلیم سے کم اور اپنی اپنی یونین میں زیادہ دلچسپی لیتے۔ پہلے نظریاتی طلبہ یونین ہوتی تھیں یعنی کوئی لیفٹ کی سیاست کر رہا تھا تو کوئی رائٹ کی جبکہ والدین یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا بچّہ درس گاہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مگر اکثریت ان طالبعلموں کی تعلیم کم اور یونین بازی میں پیش پیش تھی پھر حکومت وقت نے بھی اپنے استعمال کیلئے ان طالبعلموں کو اسلحہ دینا شروع کر دیا، دوسری طرف لسانی تنظیمیں بھی اپنے اپنے پرچم لے کر میدان میں کود پڑیں اور درس گاہوں میں ہر طرف پاکستان کے بجائے رنگ برنگے پرچم لہرانے لگے اور ایک وقت آیا کہ تعلیمی مقابلے کے بجائے تخریبی مقابلے روز کا معمول بن گئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اسلحے کے ساتھ ساتھ منشیات داخل ہو گئیں۔ جو بچّے کل تک سگریٹ نہیں پیتے تھے وہ منشیات کے عادی ہوتے گئے۔ کسی نے بھی تعلیم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ وزیر تعلیم آتے گئے اور جاتے گئے۔ اسکول ڈی نیشنلائز ہوئے مگر عادات اساتذہ اور طالبعلموں کی کون سنوارتا، کوئی روک ٹوک نہ تھی اور نہ آج ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے غربت کے باوجود طالبعلموں کو سیاست سے دور رکھا۔ آج وہ ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔ سری لنکا جیسے غریب ملک میں آج تعلیمی شرح 98فیصد ہے۔ ہندوستان میں 60فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ ہم 30فیصد سے گھٹ کر 18فیصد پر آ چکے ہیں۔ میں نے کالجوں اور اسکولوں کے بچّوں سے پوچھا کہ تمہارے وزیر تعلیم کا کیا نام ہے؟ مجھے ایک بچّے نے بھی صحیح نام نہیں بتایا۔ خود ایک سال سے میں نے وزیر تعلیم کا کوئی بیان نہیں پڑھا، نہ آج تک وہ سندھ کے کسی بھی کالج یا اسکول میں مہمان خصوصی کے طور پر آئے۔ وزیراعظم جونیجو کی حکومت نے تعلیم کو فروغ دینے کیلئے 4فیصد اقراء سرچارج لگایا گیا تھا تاکہ نئے اسکول اور کالج کھولے جائیں ۔ اس مد میں اربوں روپے جمع ہو گئے۔ اقراء سرچارج بھی 4فیصد سے بڑھا کر 5فیصد کر دیا گیا مگر نہ تو نئے اسکول کھلے اور نہ ہی کوئی نیا کالج یا یونیورسٹی کھولنے کی کوشش کی گئی۔ وزارت تعلیم نے خود کچھ نہیں کیا بلکہ نام نہاد اسکول اور اساتذہ کی ملازمت کے نام پر ہر سال اربوں روپے ہضم کر کے اس کو بھی ایک کاروبار بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف دوبارہ نجی ادارے اسکول اور کالج کھول کر حکومت کا کام آسان کر رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ چند ادارے اس وقت اپنے اپنے اسکولوں اور کالجوں سے ذہین طالبعلم پیدا کر رہے ہیں مگر محکمۂ تعلیم ان سے تعاون کرنے کے بجائے ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ نہیں چاہتا کہ ان کے ہاتھ سے یہ کاروبار جائے۔
میری موجودہ وزیر تعلیم سے استدعا ہے کہ آپ میدان میں آئیں۔ عوام نے جو رقم اقراء کے نام پر دی تھی، اس رقم سے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اسکول، کالج کھولیں اور ہمارے ان نونہالوں کو بے راہ روی سے دور رکھنے کیلئے جتن کریں۔ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو نجی شعبے کیلئے تمام ٹیکس معاف کر دیں، اس کو صنعت کا درجہ دیں جس طرح امریکہ، یورپ، جاپان میں دنیا بھر کے لوگ پڑھنے آتے ہیں۔ ہر کائونٹی میں اپنے اپنے اسکول اور کالج یونیورسٹیاں بھری پڑی ہیں۔ تعلیم عام کریں۔ اقراء سرچارج بے شک آپ وصول کرتے رہیں، نجی شعبہ اس کی کمی پوری کر دے گا۔ ہر پاکستانی تعلیم حاصل کرے جس طرح ہر شہری کو شناختی کارڈ رکھنا ضروری ہو چکا ہے اسی طرح ہر شہری کیلئے تعلیم سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ہم 21ویں صدی میں ہیں جو کمپیوٹر سے بھی بڑھ کر ایٹمی دور ہے۔ کب تک ہم اپنی قوم کو جاہل رکھیں گے۔ ہر اسکول اور نجی کالج کیلئے ضروری قرار دیں کہ وہ 15فیصد بچّوں کو مفت تعلیم دیں تاکہ غریب عوام کے بچّے تعلیم سے دور نہ رہیں اور جو نجی ادارہ اس کی پابندی نہ کرے اس کو بند کر دیا جائے۔ تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ نجی ادارے سرکاری کالجوں اور اسکولوں کو گود لینے کا سلسلہ شروع کریں۔ ہمارے بینک، انشورنس اور تمام اداروں سے صوبائی تعلیمی ٹیکس ختم کر کے ان سے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی سرپرستی کروائیں۔ آنے والا کل ہمارے جاہل بچّوں سے بہت برا سلوک کرے گا۔ اگر ہم نے ان کی تعلیم کی طرف توجّہ نہیں دی تو وہ ہم کو معاف نہیں کریں گے۔

تازہ ترین