• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

71 واں یوم آزادی، خوش آئندبات، باہمی تقسیم، سیاسی ابتری، ٹکرائو کچھ بھی تو قومی جوش، ولولہ، جذبہ کو متاثر نہ کر پائے۔ ہر14اگست کی سج دھج، شان و شوکت، ہر بیتے 14اگست کو مات کئے جا رہی ہے۔ مفاداتی کرتوت ایسے مستحکم کہ بہت ساری خوشیاں، ڈھیروں ہنگامے بھی موجودہ سیاسی تلخی کاکچھ نہ بگاڑ پائے۔پشیمانی،15اگست سے آگے سیاسی انتشارکا جاری لامتناہی سلسلہ ریاست کی چولیں ہلائے رکھے گا۔
سالہا سال سے تسلسل سے لکھ رہا ہوں کہ امریکہ بہادر ’’ڈومور‘‘ مع سازشی ہتھکنڈے بذریعہ ازلی دشمن بھارت مملکت کو افراتفری، انارکی، باہمی تصادم اور خانہ جنگی کا گھر بنانا چاہتا ہے۔ اگر یہ سب سچ، تو ہمارے ادارے، سیاسی قائدین دشمن قوتوں کے ممد و معاون کیوں؟ معجزہ ہی، مملکت ایک کروفر کے ساتھ21ویں صدی کی ترقی کا ہم پلہ ہوا چاہتی تھی۔ اقتصادی بحالی کے سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔ وائے نصیب، سازش، جہالت، غفلت کی ملی بھگت کہ عدم استحکام، انتشار، افراتفری ریاست کو اپنی لپیٹ لے چکے۔ آنے والے دن ’’سب اچھا‘‘ رپورٹ نہیں کر رہے۔
نظریاتی مملکت، عرصہ دراز سے بذریعہ مفاداتی حکمران ٹولہ اپنی نظریاتی شناخت سے بتدریج کھو چکی۔ معاملات بمطابق قرآن و سنت دور کی بات، پیرومرشد حکیم الامت اور عظیم قائد کی تعلیمات، نظریات، جدوجہد جو زبانی کلامی منافقانہ ادائیگی بھی مفقود ہو چکی۔ اللہ اور رسولؐ کے نام پر حصول، بھلا وعدہ خلافی رب ذوالجلال کے جاہ و جلال کو دعوت بھی تو دے ہی رہی ہے۔
کئی سال پہلے، جناب شہباز شریف صاحب سے تفصیلی ملاقات پر یہی کچھ گوش گزارکیا۔ جناب نواز شریف کو تیسری دفعہ کا اقتدار،غیر معمولی واقعہ یا تو بہت بڑا کام لینا ہے یا اتمام حجت، کڑی گرفت میں آجائیں۔ نواز شریف پر آزمائش و ابتلا کا نیا دور شروع ہو چکا۔ اپنے گزرے چار سالوں کا جائزہ لینا ہو گا صدق دل سے استغفار کرنا ہوگا۔جس مقصد کے لئے مملکت وجود میں آئی ان مقاصد کی تکمیل کے لئے تن من دھن، بلکہ جان قربان کرنے کا وعدہ کریں گے تو اللہ عزت، تکریم اور سرفرازی سے نوازے گا۔
اسلام آباد سے لاہور واپسی کا سفر، میاں نواز شریف کویقیناً نیا ولولہ، جوش اور حوصلہ دے گیا۔قومی اخبارات ومیڈیا سے لیکر بین الاقومی جریدوں اورمیڈیا تک، میاں نواز شریف کے حیران کن استقبال کو تاریخی بتایاگیا،یقیناً تاریخ رقم ہوئی۔استقبالی ہجوم کے اندر جوش اور جذبے کے ساتھ ساتھ منسلک غصہ، انتقام لمحہ فکریہ اور پریشانی کا باعث بھی کہ ٹکرائو کی نئی اٹھان نئے بحران کو جنم دینا ہے۔ میاں صاحب کے لئے اچھی خبرآگئی کہ ان کا ڈیڑھ کروڑ ووٹر ٹوٹ کر لوٹ آیا ہے۔آنے والے دنوں میں NA-120 الیکشن ایک سیاسی ریفرنڈم ہی رہے۔اگلے چھ ہفتے اس الیکشن نے تصادم کو بڑھانا ہے۔قومی مفادات پش پست رہیں گے، نواز شریف کو چاروں شانے چت رکھنے کیلئے ہر جائز ناجائز نادیدہ ہتھکنڈے دیکھنے کو ملیں گے۔ NA-120کا نتیجہ جنرل الیکشن 2018(اگر سسٹم ڈی ریل نہ ہوا) کا رزلٹ ہی۔ کیا ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے؟ ’’غلطیاں‘‘، ’’انڈر اسٹیمیٹ‘‘، ماضی میں قومی بلنڈرز کے مرتکب رہے۔ اقتدار تک پہنچنے یا براجمان رہنے کی حر ص اور خود غرضی میں دشمن قوتوں کے آلہ کار بننے میںعار نہ جانی۔آج ادارے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا، پارلیمان ہیچ ہو چکی ہے۔وقت آگیا ہے کہ اداروں کے حدود قیود کا واضح تعین ہو جائے۔قانون سازی ناگزیر، پارلیمان کو طاقت مل جائے۔ مملکت وجود میں آئی تو آئین اور قانون ساز ی کی کوششیں ساتھ ہی شروع ہو گئیں۔رہنما اصول وضع کر دیئے گئے۔ قراردادِ مقاصد، آج کے آئین کی بنیاد، خدوخال کا رہنما اصول بھی۔ دوسری طرف آئین سازی کے عمل کو غیر موثر رکھنے کی عملیات بھی شروع دن سے ساتھ ساتھ رو بہ عمل رہیں۔ خدا خدا کر کے 1973 کا آئین متفقہ طور پروجود میں آیا۔ نفاذ کے4 سال بعد ہی ردی کا ڈھیر بنا دیا گیا۔44 سال میں 20سال عملاً معطل رہا۔ باقی 24سال ایسی آئینی توجیحات، تشریحات، تفہیمات سامنے آئیں جو بانیان آئین کے عقل، شعور، فہم و فراست سے بالا تر تھیں۔ تسلسل سے جمہوریت کا منہ چڑایا گیا۔
1973 کا آئین ایک تفصیلی دستاویز،بیانیہ اس سے بھی زیادہ واضح ہے۔ ’’کائنات کاکلی مالک ذات باری تعالیٰ ہے۔ امورِ مملکت اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے حدود و قیود کے مطابق چلائے جائیں گے۔ قرآن و سنت کے مطابق جمہور اپنی رائے سے اپنے لئے حقِ حکمرانی تفویض کریں گے بھی۔ ریاست کا نظام منتخب افراد چلائیں گے۔ مملکت قائداعظم کے ڈیکلریشن کے تحت، اسلامی اصولوں پر استوار جمہوری، فلاحی ریاست رہے گی۔ جہاں مسلمان قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہوں گے جبکہ اقلیتیں اپنے اپنے مذہب اور عقیدے میں مکمل آزاد ہوں گی‘‘۔
1953-54کے ادھورے آئین، 1956اور1973 کے پورے آئین میں وزرائے اعظموں کی تعیناتی اور معزولی کا طریق کار بصراحت موجود رہا۔ آج تک 19وزرائے اعظموں کو ان کے عہدوں سے معزول کیا گیا، ایک معزولی بھی آئین کی روح کے مطابق نہیں رہی۔ 1989میں اسٹیبلشمنٹ کی زیر نگرانی بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جب بمطابق آئین آئی، تو منہ کی کھانی پڑی ایک ووٹ کی اکثریت پر قائم بے نظیر حکومت نہ گرا سکی۔ نواز شریف کی نااہلی، تاریخ ِآئین کا سب سے انوکھا واقعہ ہے۔ نااہلی کے فیصلے میں تشریحات، توضیحات، تفہیمات کے انبار ضرور، آئین میں خود وضاحت بصراحت کوئی شق نہیں۔ نواز شریف کا تجسس بنتا ہے کہ آئین کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کب اور کیسے بند ہو گا؟
وقت آن پہنچا ہے کہ اداروں کے حدود و قیود کا تعین ہو جائے۔ واضح قانون سازی کرنا پڑے گی کہ عوام، پارلیمان اندر بذریعہ منتخب نمائندگان موجود۔ تمام آئینی ادارے مع طاقت اس کے محتاج، پارلیمان کمزور ترین ادارہ کیوں بن چکا۔ منتخب وزیر اعظم کا ترنوالہ بننا، کب تک ایساتجاوز سہنا ہو گا؟ ووٹوں کی بے حرمتی کا عمل کیسے بند ہو گا؟ عدلیہ کے ججوں کے گناہ و ثواب، اہلی و نااہلی کا تعین، معاملہ عدلیہ کے اپنے پاس۔ فوجی جنرل کی جزا و سزا بھی محکمانہ۔ وزیراعظم پاکستان واحد غریب کی جورو پچھلے 65سال میں بیورو کریسی نے معزول بھی کیا، عدلیہ دھتکار چکی، فوج بوٹوں تلے روند چکی۔ عوام الناس کی رائے ایسی بے وقعت ہے۔ نواز شریف جو پچھلے کئی مہینوں سے اخلاقی ساکھ کھو رہے تھے۔ ساتھی بدظن نظر آتے تھے، ووٹرز، سپورٹرز کنفیوژڈ تھے۔ آج جہاں خود دھاڑنے چنگھاڑنے کا اخلاقی و قانونی جواز ڈھونڈ چکے۔ وہاں ووٹرز، سپورٹرز غصے اور انتقام کا جذبہ لئے بپھرے نظر آرہے ہیں۔ جی ٹی روڈکے جلسوں مظاہروں نے بھی یہی کچھ ثبت کیا۔آنے والے دن جنگ و جدل کی خوفناک تصویر ڈرا رہی ہے ۔
صدقِ دل سے رائے ہے کہ پاکستان کے وجہ وجود، غرض وغایت، نظریات ہوں یا اندرونی بیرونی، بین الاقوامی خطرات،تک جو سمجھ بوجھ افواج پاکستان کو ہے، سیاسی قیادت کے نصیب میں نہیں۔ گو طالع آزمااپنی قوت کی غلط روش سے کبھی محروم نہیں رہے، اس کا قلق ساتھ ساتھ منسلک ہے۔فوج جب بھی بنفس نفیس عنانِ اقتدار سنبھالتی ہے،کمزور ہو جاتی ہے۔بین الاقوامی طاقتیں بھی بلیک میل کرنے کا بندوبست کرنے میں عجلت دکھاتی ہیں۔
سپہ سالار وطن کے بیانات، خیالات،خدشات، تفکرات کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہوں۔14اگست کو جنرل باجوہ نے واشگاف اور دو ٹوک الفاظ میں فرمایا’’پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے۔ اقبال کے خواب اور قائد کی تعبیر کو مملکت کا مقدر بنائیں گے۔ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں، لیکن ان سے سبق بھی سیکھا ہے ‘‘۔ جنرل صاحب کے ’’آئین اور قانون‘‘،’’اقبال کے خواب اور قائد کی تعبیر‘‘والے خیالات، میراآج کا موضوع نہیں۔اس وقت بصد ادب و احترام اختلاف کی جسارت کرتاہوں’’ماضی میں غلطیاں کی تھیں اوران سے سبق سیکھا ہے‘‘۔ جناب!ماضی میں ’’غلطیاں‘‘ نہیں ’’فاش غلطیاں‘‘ کی ہیں۔ اکثر ہر بڑی غلطی کے پیچھے کسی نہ کسی ادارے کو چاق و چوبند اور مستعد پایا۔ مزید دست بستہ معافی، ہم نے کسی طور سبق نہیں سیکھا۔
نواز شریف کی نااہلی، ایسے موقع پر جب بین الاقوامی طاقتیں گدھیں بن کروطنِ عزیز کو نوچنے کے لئے منڈلا رہی ہوں۔ سیاسی افراتفری، تنائوٹکرائوکسی طوروارے میں نہ تھا، کیا خاک سبق سیکھاہے ؟ جناب ایئر مارشل اصغر خان کی زندگی کا نچوڑ ان کی کتاب ’’ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا‘‘، من و عن اسی بیانیے کی تائیدکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ بدقسمتی ہوگی، اگر میری رائے صحیح ثابت ہوئی۔ آنے والے دنوں، نواز شریف کی نااہلی پر جس دلدل میں پھنسنے کو ہیں، سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، الامان الحفیظ۔

تازہ ترین