• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی دنیا

14 اگست کا دن پاکستانیوں کیلئے ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور دن ہے۔ یہ صرف ایک دن ہی نہیں بلکہ خاص تہوار بھی ہے جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کرہ ارض کا وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریئے پر رکھی گئی اور برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اِس نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جن کی طرز زندگی، ثقافت اور مذہب سب سے الگ ہے اور اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم یا قومیت میں ضم ممکن نہیں۔ آزادی کے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں اور بے مثال جدوجہد کی، یہ اُن کے اسلام اور دو قومی نظریئے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت تھا جس کے نتیجے میں بالآخر پاکستان وجود میں آیا۔ قیام پاکستان سے کئی سال قبل قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’پاکستان اُس دن معرض وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں کوئی غیر مسلم مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا بلکہ وہ ایسی جگہ چاہتے تھے جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔‘‘
پاکستانی قوم ہر سال جشن آزادی بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے لیکن اس بار پاکستانی قوم حب الوطنی اور جوش و جذبے سے ماضی کے مقابلے میں کچھ زیادہ سرشار نظر آئی جس کی اہم وجہ دہشت گردوں کے خلاف جاری ’’آپریشن ضرب عضب‘‘، ’’ردالفساد‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ میں حاصل ہونے والی کامیابیاں، امن و امان کی بہتر صورتحال اور عوام کے دلوں سے خوف و ہراس کا خاتمہ تھا۔ جشن آزادی کے موقع پر ہر شخص نے اپنی استطاعت کے مطابق گھروں اور عمارتوں کو قد آور قومی پرچموں، جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجارکھا تھا جبکہ کوئی کار، موٹر سائیکل اور پبلک ٹرانسپورٹ ایسی نہیں تھی جہاں قومی پرچم نہ لہرائے گئے ہوں۔ شہر کی سڑکوں پر کچھ ایسے بینرز بھی آویزاں تھے جن میں آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی کے شہریوں نے قومی پرچموں کی خریداری پر دو ارب روپے سے زائد خرچ کئے اور اگر پورے ملک کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ 50 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ اس بار 70واں جشن آزادی نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ، کینیڈا، یورپ اور خلیجی ممالک سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں نے بھی انتہائی جوش و خروش سے منایا۔ جشن آزادی کے موقع پر میں دبئی میں موجود تھا جہاں پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کیلئے دبئی حکومت نے دنیا کی بلند ترین عمارت ’’برج خلیفہ‘‘ کو پاکستانی پرچم کے رنگوں کی برقی روشنیوں سے روشن کیا جسے مجھ سمیت وہاں موجود پاکستانیوں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں غیر ملکی سیاحوں نے براہ راست دیکھا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے تن تنہا ایک گولی چلائے بغیر مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کیا جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ بھارتی اکثر یہ کہتے سنے گئے ہیںکہ ’’پاکستان اس لئے بن گیا کہ اُس وقت نہرو اور دیگر بھارتی قیادت، قائداعظم کے پائے کی نہ تھی لیکن آج 70 سال گزرنے کے بعد صورتحال مختلف ہے اور پاکستان میں قائداعظم کے پائے کا کوئی سیاستدان نہیں۔‘‘ قائداعظم کی وفات کے بعد اس انکشاف سے پردہ اٹھا کہ جس وقت وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اُنہیں ٹی بی کا مہلک مرض لاحق تھا جسے انہوں نے لوگوں سے پوشیدہ رکھا اور اپنی بہن فاطمہ جناح کے علاوہ کسی کو بیماری کا علم نہ ہونے دیا جبکہ انہوں نے علاج کروانے پر بھی توجہ نہ دی کیونکہ انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر اُن کی بیماری کا راز فاش ہوگیا تو نہ صرف جدوجہد آزادی کی مہم کمزور پڑجائے گی بلکہ دشمن بھی اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ قائداعظم کی اسی دانشمندی اور دوراندیشی کی بدولت مسلمانوں کو آزاد وطن حاصل ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھنے اور صحت پر توجہ نہ دینے کے باعث قائداعظم کی طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ قائداعظم چاہتے تو بیرون ملک علاج کیلئے جاسکتے تھے مگر انہوں نے قومی خزانے پر بوجھ بننے کے بجائے پاکستان میں ہی علاج کروانے کو ترجیح دی، اس طرح قوم آزادی کے صرف ایک سال بعد یتیم ہوگئی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے اعتراف کیا کہ ’’اگر اُنہیں یہ علم ہوجاتا کہ جناح ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہیں تو وہ مذاکرات میں تاخیر کرتے رہتے تاکہ جناح کی وفات کے بعد جدوجہد آزادی کی مہم کمزور پڑجائے اور پاکستان معرض وجود میں نہ آسکے۔‘‘ مجھے اس بات پر پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو دنیا میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کیلئے بھیجا تھا اور جب یہ مقصد پورا ہوگیا تو اللہ نے اُنہیں اپنے پاس بلالیا۔
آج یوم آزادی کے حوالے سے کالم تحریر کرتے ہوئے سرگودھا سے تعلق رکھنے والی کینسر کے مرض میں مبتلا 14 سالہ عظمیٰ حیات یاد آرہی ہے جس نے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان جس کا میں بانی صدر ہوں، کو بذریعہ خط اپنی آخری خواہش سے آگاہ کیا کہ ’’میں موذی مرض میں مبتلا ہوں، میری آخری خواہش ہے کہ کراچی آکر مزار قائد پر حاضری دوں اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائوں مگر غربت کے سبب والدین کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کراچی کے سفر کا خرچ برداشت کرسکیں۔‘‘ خط موصول ہونے اور عظمیٰ کی بیماری کی تصدیق کرنے کے بعد میک اے وش پاکستان نے بچی کو والدین کے ہمراہ کراچی لانے کے انتظامات کئے۔ عظمیٰ کی ماں راستے بھر اپنی بیٹی پر زور دیتی رہی کہ مزار قائد پر جانے کے بجائے میک اے وش والوں سے ٹی وی سیٹ یا کوئی بڑی چیز مانگ لو مگر عظمیٰ اپنی خواہش پر بضد رہی۔ کراچی پہنچنے اور مزار قائد پر حاضری دیتے وقت عظمیٰ کی خوشی قابل دید تھی، اس موقع پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ بعد ازاں جب میں نے بچی سے اُس کی منفرد خواہش کا سبب دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ میری زندگی کے دن مختصر ہیں لیکن میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ مزار قائد دیکھوں اور اُس قائد کا شکریہ ادا کروں جس نے ہمیں اتنا پیارا وطن پاکستان دیا۔‘‘ آج عظمیٰ ہمارے درمیان نہیں مگر اُس کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں اور میں یہ سوچتا ہوں کہ ایک قریب المرگ بچی اپنے دل میں قائداعظم اور پاکستان کیلئے کتنی محبت رکھتی ہے مگر ہم صحت مند لوگ قائد کے دیئے گئے وطن کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔
ہم 14اگست کو جشن آزادی کے موقع پر اپنے گھروں، عمارتوں، کاروں اور مختلف مقامات پر قومی پرچم سجاکر حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ اس دن ہمیں آزاد وطن حاصل ہوا مگر افسوس کہ باقی دنوں میں ہمارا جوش و جذبہ ماند پڑجاتا ہے۔ اگر ہم سال میں صرف ایک بار یہ سوچ لیں کہ ہم نے پورے سال اچھے پاکستانی ہونے کا کیا ثبوت دیا، ہمارا کونسا عمل صرف اور صرف پاکستان کے مفاد میں تھا ہم نے اپنے وطن کو کیا دیا تو آج پاکستان اس جگہ نہ ہوتا جہاں آزادی کے 70سالوں بعد کھڑا ہے۔ یوم آزادی کی اگلی صبح قومی پرچموں اور جھنڈیوں کو سڑکوں پر گرے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ قومی پرچم بھی متبرک اور قابل احترام ہوتا ہے جس کی بے حرمتی کسی صورت جائز نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم یوم آزادی منانے کے بعد ان پرچموں کو احتیاط سے اتارکر رکھ لیں تاکہ آئندہ سال استعمال میں لایا جاسکے اور پیسوں کا ضیاع بھی نہ ہو۔ یوم آزادی اور جشن آزادی کا مفہوم کیا ہے، یہ صرف کشمیری، فلسطینی اور دیگر ایسی قومیں ہی جانتی ہیں جو اپنے لئے علیحدہ وطن اور آزادی کی جدوجہد کررہی ہیں تاکہ وہ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ آزادی کیا ہوتی ہے، یہ کوئی کشمیریوں اور فلسطینیوں سے جاکر پوچھے جو آزاد وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ان شاء اللہ بہت جلد اُنہیں بھی آزادی کی صبح نصیب ہوگی۔

تازہ ترین