• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابقہ وزیر اعظم نے اپنی معطلی کے بعد جی ٹی روڈ سے جو واپسی کا سفر کیا اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں متضاد دعوے کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کے متضاد دعوے ان کے مستقبل کے بارے میں بھی ہو رہے ہیں۔ان کے مخالفین کو یقین ہے کہ اب وہ کبھی نہ واپس آنے کے لئے جا چکے ہیں جبکہ ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم کی گدی پر براجمان ہوں گے۔ دریں اثناء بہت سے جمہوریت پسندوں کو تشویش ہے کہ کیا جمہوری عمل جاری رہے گا یا نہیں۔ ان سب سوالوں کا جواب دینے کیلئے دیکھنا پڑے گا کہ پاکستانی معاشرے میں بنیادی تضادات کیا ہیں اور کیا اس طبقے نے جس کی نمائندگی میاں نواز شریف کر رہے تھے اپنی ترجیحات مطلقاً بدل لی ہیں؟ ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہوا اور میاں نواز شریف پاکستانی سیاست میں ابھی کافی دیر تک کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتے رہیں گے۔
میاں نواز شریف کو دو مرتبہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے معطل کیا گیا۔ تیسری مرتبہ اعلیٰ عدلیہ نے جن دلائل کی بنا پر انہیں فارغ کیا ہے اس کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیںمثلاً کیا عدلیہ براہ راست منتخبہ حکومتی سربراہ کو معطل کر سکتی ہے یا وہ صرف معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج سکتی ہے؟ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں عدلیہ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جمہوری سربراہ کے خلاف براہ راست فیصلہ صادر کرے۔ اس کے علاوہ بھی کئی قانونی نکات ہیں جن کے تحت اعلیٰ عدلیہ اس طرح کے مقدمات کا ویسے فیصلہ نہیں کر سکتی جیسا کہ کیا گیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ جس طرح سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو معطل کیا تھا اس سے سپریم کورٹ میں ایک نظیر معرض وجود میں آگئی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ منتخبہ سربراہ کو براہ راست معزول کر سکتی ہے۔ اسلئے قانونی ماہرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جب تک مذکورہ نظیر سپریم کورٹ میں موجود ہے، اعلیٰ عدلیہ کسی بھی وزیر اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے۔ مزید برآں آئین میں امین اور صادق ہونے کی شق (باسٹھ تریسٹھ) تلوار کی طرح ہر وزیر اعظم کے سر پر لٹکتی رہے گی۔
سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے ماضی میں اصولی جمہوری موقف اپنانے کی بجائے سیاسی موقع پرستی اور مصلحت کوشی سے کام لیا۔ مثلاً جب پیپلز پارٹی امین اور صادق کی آئینی شق ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو مسلم لیگ (ن) نے مذہبی جماعتوں کا اتحادی ہوتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے سابقہ وزرائے اعظم، محمد خان جونیجواور بینظیر بھٹو، کو نکلوانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ ان پہلوئوں سے دیکھیں تو میاں نواز شریف کا ماضی کافی داغدار ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یا کسی دوسرے ادارے کو منتخب وزیر اعظم ( خواہ وہ نواز شریف ہی کیوں نہ ہوں) کو معطل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ اداروں کی مضبوطی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں۔ قطع نظر نواز مخالف دانشوروں کی خواش خیالیوں کے ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ سول ادارے کس حد تک اسٹیبلشمنٹ کی نفی کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑا اور بنیادی تضاد سول اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے۔ باوجود اس کے کہ اب بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ عدلیہ جیسے اداروں کی خود مختاری کافی مضبوط ہو چکی ہے لیکن اس کا امتحان تبھی ہوگا جب عدلیہ کا اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے ساتھ ٹکراؤ ہوگا۔ اب تک تو یہی ثابت ہوا ہے کہ پہلے سول حکومتوں کا خاتمہ اٹھاون۔ٹو بی کے تحت ہوتا تھا اور اب باسٹھ تریسٹھ کے تحت ہو رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدو جہد میں میاں نواز شریف تاجر طبقات کی نمائندگی کر رہے ہیں: تاجر طبقات فطری طور پر میاں نواز شریف کو ووٹ دے کر وزیر اعظم کی کرسی تک تو پہنچا سکتے ہیں لیکن سڑکوں پر آکر ان کی معطلی کے فیصلے کو منسوخ نہیں کروا سکتے۔ نواز شریف کے حامی طبقات بازاروں کی بندش کی عیاشی کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ان کی روزی کے اسباب کے منافی ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی معیشت میں یہ طبقات تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ابھی تک نواز شریف کے علاوہ کوئی ان کی نمائندگی کا دعویدار نہیں ہے۔ چونکہ یہ طبقات شہروں (بالخصوص پنجاب میں) پر غالب ہیں اس لئے میاں نواز شریف کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی،وہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی سیاست کو متاثر کرتے رہیں گے۔
دوسری طرف ملک کے درمیانے درجے کے پیشہ ور اور کسی حد تک صنعتی طبقات تحریک انصاف کے روح رواں ہیں۔ میاں نواز شریف کے حامی تاجر طبقے ٹیکسوں سے مبرا رہنا چاہتے ہیں جبکہ پیشہ ور طبقات ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں اور اسی لئے وہ ملک میں مخصوص طرز کا ’’صاف شفاف‘‘ نظام دیکھنا چاہتے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے یہ دونوں طرح کے طبقات سرمایہ داری نظام کے حامی ہیں اور سماجی لحاظ سے روایت پسند ہیں۔ان طبقات میں ٹکراؤ بھی ہے اور کئی پہلوئوں سے مشابہت بھی۔ علاوہ ازیں عمران خان کے نعرے کوئی ایسا واضح سیاسی پروگرام نہیں پیش کرتے جو اسے میاں نواز شریف سے ممیز کر سکے۔ بد عنوانی کے خلاف تحریک انصاف کی جنگ عمومی اور مبہم ہے۔عمران خان ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کوئی واضح نعرہ نہیں دے سکے۔ میاں نواز شریف تاجر طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ترقیاتی پروگراموں کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور اس لئے مستقبل قریب کی سیاست سے ان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین