• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجودہ داخلی صورتحال پر امریکہ و کینیڈا کے پاکستانی خاصے دل گرفتہ اور فکر مند ہیں کہ یہ داخلی عدم استحکام کا سیلاب آخر کہاں جاکر رکے گا اور کیا اثرات دکھائے گا۔ پاکستان میں بسنے والوں کے مقابلے میں بیرون پاکستان آباد پاکستانیوں کی فکر و نظر کچھ زیادہ حساس اور عالمی تناظر میں خطرات کو جلد بھانپ لینے میں زیادہ فعال ہے کیونکہ وہ صورتحال کو مقامی نہیں بلکہ وسیع زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا سوائے سرکاری حکام اور پاکستانی سفارتکاروں کے باقی ہر پاکستانی آبائی وطن کی صورتحال پر فکر مند بھی ہے اس موضوع پر گفتگو بھی کرتا ہے یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ دوسرے کا نقطہ نظر کیا ہے لیکن پھر ساتھ ہی پاکستان اور اس کے مستقبل کی خیر بھی مانگتا ہے۔ اگست یعنی آزادی پاکستان کی 70ویں سالگرہ کے اجتماعات اور تقریبات نے غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں اور ان کی نئی نسل کو پاکستان سے لگائو کے اظہار میں خوب خوب متحرک کردیا ہے۔ امریکہ میں محاورہ رائج ہے کہ امریکہ میں لنچ فری نہیں ملتا لیکن 13اور 14اگست کی درمیانی شب کو نیویارک کے ایک مصروف چوراہے کی ایک سائڈ پر سبز رنگ کی ٹی شرٹس پر پاکستانی۔ امریکنز ینگ ایسوسی ایشن کے سائن کے ساتھ نوجوانوں نے باربی کیو کرنے والی کئی بڑی بڑی گرل (انگیٹھیاں) دہکا کر پاکستان اور امریکی جھنڈوں کے جھرمٹ میں تمام آنے جانے والے افراد اور پاکستانی مرد خواتین اور بچوں کے لئے ’’فری باربی کیو‘‘ کا انتظام کر رکھا تھا۔ نیویارک پولیس کی ایک سیکورٹی کار بھی ڈیوٹی پر تھی قریبی اسٹور سے بجلی کا کنکشن لے کر خوب روشن کر رکھا تھا اور پاکستانی ترانوں کی دھنیں بھی بج رہی تھیں تو باربی کیوکے دھوئیں کا بھی زور تھا۔ بہت سے نوجوان جو اردو تو رک کر یاامریکی انگریزی میں ملاکر بول رہے تھے وہ مہمانوں اور گزرنے والوں کی میزبانی گرم گرم چکن باربی کیو اور مشروبات سے کررہے تھے۔ یہ وہ نسل ہے جو پیدائشی امریکی شہری اور نسلی طور پر پاکستانی ہے مگر پاکستان کے ملی ترانوں پر امریکی انداز کے بھنگڑے خوب خوب ڈالتی ہے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر چنے کی دال گوشت اور سفید باسمتی چاول کا ڈنر بھی مفت چل رہاتھا اور اگلے روز آزادی پاکستان کی سالگرہ کے حوالے سے ایک اور عوامی اور مفت باربی کیو کے انتظامات ہورہے تھے۔ مختصر یہ کہ وہ پاکستانی نژاد امریکی نسل جس کا پاکستان سے اب بظاہر کوئی مادی یا معاشی مفاد وابستہ بھی نہیں ہے وہ خوشی خوشی اپنی ’’چوائس‘‘ سے پاکستان کے ساتھ اپنے لگائو اور محبت کا ثبوت پیش کررہی ہے۔ پاکستانی سیاستدان توجہ فرمائیں۔ وہ پاکستان کی سلامتی اور ترقی کی دعا کرتے اور دہشت گردی اور داخلی بحران پر نفرت اور ناراضی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی آزادی سلامتی اور ترقی اس نسل کو بھی عزیز ہے جن کی زندگی، مستقبل اور مفاد امریکہ و کینیڈا سے وابستہ ہے صرف والدین پاکستانی ہیں یا تھے۔
14اگست کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں پاکستان کے یوم آزادی کی 70ویں سالگرہ کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔ پاکستان کی سفیر برائے اقوام متحدہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور ان کی سفارتی ٹیم نے کچھ یوں کیا کہ پاکستان میں قائم سچل جاز گروپ کے بانی پروڈیوسر اور مختار کل عزت مجید اور ان کی اہلیہ کے اشتراک سے پروگرام ترتیب دیا۔ مشرقی اور مغربی آلات موسیقی کے اشتراک سے ’’لاہور جاز‘‘ اور منفرد انداز کی دلکشں موسیقی زبان اور لغت کی سرحدوں سے بے نیاز بھی تھی اور ہمہ گیریت کا پیغام بھی لئے ہوئے تھی کہ اس کا لطف اٹھانے کے لئے زبان دانی کی ضرورت نہیں تھی۔ ’’جیو‘‘ کی میڈیا پارٹنر شپ بھی شامل تھی لہٰذا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں 14اگست کی شام کو آزادی پاکستان کی 70ویں سالگرہ کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد کیا جس کے لئے پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ قابل مبارکباد ہے۔ پاکستانی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ایسے پروگرامز کا مقصد پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنا ہے کیونکہ موسیقی کا لطف اٹھانے کے لئے کسی زبان دانی کی ضرورت نہیں ہے۔ روسی، چینی، عربی، فرنچ، برٹش، ایرانی پاکستانی سبھی یکساں طور پر پیغام کو سمجھ سکتے ہیں۔ پروگرام کے دوران دھنوں پر انڈونیشن، پاکستانی ایرانی اور یورپی انگلیاں اور سر یکساں طور پر ہلتے اور لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔ اقوام متحدہ کی بلڈنگ میں اس پروگرام کا انعقاد اپنی جگہ اہمیت اور امتیاز کا حامل ہے۔ غیرملکی سفاتکاروں کے لئے ماحول سے واقفیت سیکورٹی اور دیگر عوامل موجود ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی کمیونٹی کے لئے اقوام متحدہ کی عمارت میں آنے کا موقع ملنا بذات خود بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے یوم آزادی کی مناسبت سے ہونے والے اس پروگرام میں آنے والے نوجوان اور نئی پاکستانی نسل کے افراد سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو پتہ چلاکہ ایک بڑی تعداد کا پاکستان سے تعلق، صرف اپنے پاکستانی والدین اور رشتہ داروں کے باعث ہے جبکہ وہ خود امریکہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان جانے کا موقع بھی انہیں کم ملا ہے لیکن وہ پاکستان اور پاکستانی کلچر کے ساتھ والہانہ لگائو رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان سے دور رہ کر امریکی تعلیم اور شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان کے لئے فکر مند نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی پاکستانی شناخت کا اظہار اتنے فخر سے کرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ بیرون پاکستان پیدا ہونے اور جوان ہونے والی نئی نسل ایک نئے پاکستان کی فکر اور تعمیر کے لئے تیاری کر رہی ہے۔ آج 14اگست کو ہی پاکستان نژاد امریکی پولیس افسروں کے ایک بڑے گروپ نے آزادی پاکستان کی سالگرہ پر کھلے عام ایک تقریب کا اہتمام کیا اور دو بڑے پول نصب کرکے پاکستان اور امریکہ کے قومی پرچموں کو لہرایا تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان کے قونصلر جنرل راجہ علی اعجاز تھے۔ حلال چکن کا وسیع پیمانے پر باربی کیو کا انتظام اور میزبان نیویارک پولیس کے یونیفارم میں ملبوس پاکستانی نژاد پولیس افسرز ہیں امریکی شہری امریکی پولیس افسر لیکن پاکستان کے داخلی بحران اور سیاسی خلفشار اور متفکر مگر اپنی پاکستانی شناخت اور آزادی پاکستان پر فخر کرنے والی یہ نئی نسل اہل پاکستان اور سرزمین پاکستان کی فکر اور خیرخواہی کرنے والے سپوت آزادی پاکستان کے لئے ایک اضافی سرمایہ ہیں۔ اس بار یوم آزادی پر امریکہ و کینیڈا میں نئی پاکستانی نژاد نسل کے یہ انداز دیکھ کر پاکستان کے مستقبل اور آزادی میں اعتماد مزید بڑھ جاتا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی موجودہ نسل کے لئے سوچ کا مقام ہے۔

تازہ ترین