• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کی شان ہے کہ پیپلز پارٹی جسے انقلابی جماعت تصور کیا جاتا تھا اور جو بائیں بازو کی دانشوروں، انقلابیوں اور مزدور لیڈروں کی امیدوں کا محور ہوا کرتی تھی، آج اپنے آپ کو اسٹیٹس کو کی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، قبل از زرداری اور بعد از زرداری۔ بینظیر بھٹو کی قبل از زرداری سیاست انقلابی رجحانات رکھتی تھی۔ جمہوریت، مظلومیت، سوشلزم، انقلاب جیسے نعرے اور موضوعات انکی سیاست کا حصہ تھے۔ لیکن انکی بعد از زرداری سیاست کرپشن، جوڑ توڑ، اسٹیٹس کو کے ساتھ ڈیل اور مغربی قوتوں کی بیساکھیوں کی وجہ سے ہدفِ تنقید بنتی رہی۔ بلاول زرداری نے جن خطوط پر پہلی سیاسی اڑان بھری ہے اس میں بینظیر کی ابتدائی سیاست کی بجائے انکی بعد والی سیاست کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انکی سیاست کا انداز بینظیر بھٹو کی بجائے آصف زرداری کے سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایسے وقت میں جب نواز شریف کی سیاست کو نااہلی کی شکل میں ایک زوردار جھٹکا دیا گیا ہے تو بلاول زرداری اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر لانے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔پچھلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو سندھ سے باہر کمپین کرنے سے باز رکھنے کیلئے ’’سیکورٹی خطرات‘‘ کی شکل میں جو غیر اعلانیہ پابندی لگائی گئی تھی، چنیوٹ کا جلسہ اس پابندی کے اٹھائے جانے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بلاول زرداری کے چنیوٹ جلسے کی نواز شریف کے داتا دربار جلسے کے ساتھ ٹائمنگ محض ایک اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ جلسہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اس نے پنجاب کے میدانِ سیاست کو پیپلز پارٹی کیلئے کھولنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ مزید یہ کہ آصف زرداری سے بلاول زرداری تک پارٹی کی قیادت کے بلا رکاوٹ انتقال میں بھی جونیجو سے نواز شریف کو پارٹی قیادت سونپے جانے والی مماثلت زیادہ ہے، بہ نسبت ذوالفقار بھٹو سے بینظیر بھٹو کو پارٹی لیڈر شپ کی منتقلی کے۔ یہ باتیں اشارہ کرتی ہیں کہ پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہوا ہے۔
اللہ کی شان ہے کہ مسلم لیگ ن جو اسٹیٹس کو کی جماعت تصور کی جاتی تھی اور جسے اسٹیبلشمنٹ بائیں بازور کی تحریک کو کچلنے کیلئے، پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی مذہبی جماعتوں کی حمایت دلوا کر اقتدار میں لائی تھی، وہ آج انقلاب کی بات کر رہی ہے۔ نواز شریف کی سیاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انکی ابتدائی سیاست تحریک استقلال کی گمنامی سے لیکر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں وزیر اعظم بنائے جانے تک جوڑ توڑ، ڈیل بازی، خرید و فروخت، پیسے کا استعمال اور کرپشن جیسے الزامات سے عبارت تھی جبکہ انکی سیاست کا دوسرا دور انکی بطور وزیر اعظم پہلی برطرفی سے لیکر چند روز پہلے داتا دربار کی تقریر تک مزاحمت، جمہوریت، ڈیل بازی اور خودسری جیسی ملی جلی سیاست کا دور رہا ہے۔ اب انکو تیسری دفعہ نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے بلکہ سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پر بھی بات ختم نہیں ہوئی بلکہ انکے بچوں پر بھی مقدمات بنانے کا عندیہ سنایا گیا ہے (اس سے پہلے صرف والد اور شوہر پر مقدمات کی مثال موجود تھی) ۔ اس پر بھی بات ختم نہیں ہوئی بلکہ انکے اپنی سیاسی میراث مریم نواز کو منتقل کرنے کے منصوبے پر بھی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ انکے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا یہ رویہ کم و بیش اسی غصے کی نشاندہی کر رہا ہے جسکا اظہار بھٹو کی پھانسی کی شکل میں نکلا تھا۔ لیکن انکے ساتھ بھٹو والا معاملہ اس لئے نہیں ہو سکا کہ ایک تو وہ خود پنجابی ہیں اور بالائی پنجاب کے چند ضلعوں جہاں سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے، کو انکا مضبوط سیاسی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عوامی شعور میں اضافے، بین الاقوامی حالات میں تبدیلی اور سوشل میڈیا کے انقلاب کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ چند خلیجی ممالک چھوڑ کے بین الاقوامی قوتیں نواز شریف کے حق میں ہیں۔ خیر نواز شریف کے ساتھ عدالتی فیصلے کے ذریعے کئے جانے والے تیسرے حملے کے بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انکی سیاست ایک تیسرے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ نواز شریف جو اپنی سیاست کے دوسرے دور میں خود انکے اپنے بقول نظریاتی شخص بن چکے تھے، تیسرے سیاسی دور میں اب انقلاب کی صدا لگا رہے ہیں۔ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ مریم نواز کو بھی اپنے والد کی سیاسی جانشینی بلاول زرداری کی طرح پلیٹ میں نہیں ملے گی بلکہ اسکے لئے انہیں بینظیر بھٹو کی طرح اپنے آپ کو اسکا اہل ثابت کرنا ہو گا۔
نواز شریف کے انقلاب کے خدوخال آنے والے دنوں میں مزید واضح ہونگے لیکن ابھی تک جو اشارے ملے ہیں وہ سویلین بالا دستی اور ریاستی اداروں کے درمیان درہم برہم توازن کی بحالی کو انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ یہ انقلاب وہی ہے جس کی کوشش ذوالفقار بھٹو کر چکے ہیں۔ بھٹو انقلاب برپا نہ کرسکے بلکہ انہیں الٹا جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی زندگی میں بہت مشابہت ہے۔ بھٹو نے بھی دو آمروں یعنی اسکندر مرزا اور جنرل ایوب کے زیر سایہ بڑی کم عمری میں اپنا سیاسی کیرئیر بنایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انکا سیاسی شعور بیدار ہوا تو جنرل ایوب نے انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کی، نتیجتاً وہ اسٹیبلشمنٹ کے باغی ہو گئے اور عوامی حاکمیت کے نعرے لگانے لگے۔ ٹھیک اسی طرح نواز شریف نے بھی جنرل ضیا اور جنرل جیلانی جیسے آمروں کے زیر سایہ بہت کم عمری میں اپنا سیاسی کیرئیر بنایا، وزیراعظم بننے کے بعد جب وہ سیاسی اختیارات کا مطالبہ کرنے لگے تو اسٹیبلشمنٹ نے انہیں چلتا کیا، وہ باغی بنے اور معتوب ٹھہرے۔ لیکن بھٹو اور نواز شریف کی بغاوت میں اہم فرق عوام کے سیاسی شعور کی بہتری کا ہے۔ اگر بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا اور نواز شریف کی صرف عدالتی نااہلی ہو پائی ہے تو اسکی بنیادی وجہ بدلے ہوئے معروضی حالات ہیں۔ یہ امر جمہوری ارتقا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ نواز شریف جس چیز کو انقلاب کا نام دے رہے ہیں وہ دراصل ارتقا ہے۔ اگر نواز شریف نے سمجھوتہ نہ کیا اور کوشش پر آمادہ رہے تو قطع نظر اس بات کہ کہ وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام، وہ یقیناً جمہوری سفر کو ارتقا کی اگلی منزل سے ہمکنار کر جائیں گے۔

تازہ ترین