• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) پر ریلی نکالتے ہوئے نواز شریف ایک فیصلہ کن دوراہے پر پہنچ گئے ہیں۔ اب یا کبھی نہیں۔ جو کچھ اُنھوں نے کہنا تھا، دل کھول کر کہہ دیا۔ عوام کے سامنے البتہ اس کی تفصیل آنا باقی ہے کہ اُن کے مختصر دور ِحکومت میں اُن کے اور طاقتور حلقوں، جیسا کہ اسٹیبلشمنٹ، کے درمیان کیا کھیل کھیلا جاتا رہا۔
اُنھوں نے کھل کر کسی کا نام نہیں لیا، نہ ہی مخصوص افراد پر حملہ آور ہوتے ہوئے سرخ لکیر عبور کی۔ اپنے دل میں پنہاں رازوں سے بھی پردہ نہیں اٹھایا اگرچہ اُن کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ سازش کے پیچھے کار فرما محرکات کو بے نقاب کریں گے جو اُن کی آئینی مدت کے دوران اُن کے دامن گیر رہے۔ اُنہیں وزارتِ عظمیٰ سے محروم کر دینے والی’’عظیم سازش‘‘ کے پسِ منظر میں اُنھوں نے تین واقعات کا اجمالاً ذکر کیا۔ یہ دھاندلی کے خلاف دئیے جانے والے دھرنے، ڈان لیکس اور پاناما لیکس ہیں، اور انہی سے ’’نواز ہٹائو‘‘ مہم کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن ایسا کس نے کیا اور اصل واقعات کیا تھے، اُنھوں نے اس راز کو مخفی رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
ایک بات البتہ واضح ہے کہ جب تک اقتدار میں رہے، مکمل سکوت اُن کا شعار تھا۔ نہایت خاموشی سے اپنے آفس کا اختیار کم کرنے اور خود کو گھیرے میں لینے کی کوششیں دیکھتے رہے لیکن لب کشائی کی جسارت نہ کی۔ وہ دیکھ سکتے تھے اور اُنہیں یقین تھا کہ اُن کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے لیکن منہ بند رکھتے ہوئے وہ چار سال نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ جانتے تھے کہ تابِ سخن اُنہیں دروازے کا راستہ دکھا سکتی ہے یا کم از کم وہ یہی کچھ کر سکتے تھے کہ کچھ نہ کریں۔ اب چار سالوں سے جاری سازشوں کا بیانیہ سننے کے بعد انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا مبینہ غیر آئینی اقدامات کو ہوتے دیکھ کر خاموش رہنا درست حکمتِ عملی تھی؟ نہیں، ایسا نہیں تھا۔ جس مقدس مینڈیٹ کی وہ اب دہائی دے رہے ہیں، اُس کا تحفظ اُس وقت کیا جانا تھا جب و ہ حملے کی زد میں تھا، یا اسے پامال کیا جا رہا تھا۔ اُنہیں ا س وقت ایک لیڈر کی طرح سر اٹھا کر وہ کچھ کہنا چاہئے تھا جو وہ اب ریلیوں اور پریس بیانات میں کہہ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں اُس وقت بھی اس جسارت کی قیمت چکانی پڑتی لیکن وہ موجود قیمت کے مقابلے میں بہت کم ہوتی۔
اسے مختلف انداز میں دیکھیں تو بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب وہ سازشیں مبینہ طور پر وقوع پذیر ہو رہی تھیں تو اُن پر نواز شریف کی قوت فیصلہ نہایت ناقص تھی۔ اگر وہ سازشیں یکے بعد دیگرے تواتر سے ہو رہی تھیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تواتر سے ناقص قوتِ فیصلہ کا مظاہرہ کر رہے تھے، جو کہ ایک لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے ایک بنیادی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا لڑائی کو اگلے مرحلے میں لے جانے کا اُن کا موجودہ فیصلہ درست ہے؟ اب وہ اُن حالات کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اُن کے بقول اُن کی اقتدار سے بے دخلی کا باعث بنے۔ وہ اپنا کیس پاکستان میں برطرف کیے گئے وزرائے اعظم کے تناظر میں پیش کر رہے ہیں کہ کسی کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی کوئی وزیراعظم سول ملٹری عدم توازن کو دور کرنے کیلئے آزاد تھا۔ اب اُن کے پاس اسٹینڈ لینے کیلئے اہم ترین منترا یہی ہے کہ جب تک منتخب شدہ حکومت کے حق میں طاقت کا توازن نہیں آجاتا، ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کیا اس وقت یہ نعرہ لگانا درست فیصلہ ہے؟ یا پھر اُنھوں نے اس حقیقت تک پہنچنے یا اسے زبان پر لانے میں بہت دیر کر دی ہے؟ کیا وہ ایک ایسی لڑائی مول لے کر غلطی کر رہے ہیں جو وہ جیت نہیں سکتے؟ کیا یہ ویسی ہی غلطی ہے جیسی اُس وقت لڑائی نہ کرنا تھا جب وہ جیت سکتے تھے؟
نواز شریف کا کیمپ اس پر بہت پرجوش ہے کہ اُنہیں عوام کی طرف سے بہت اچھا ردعمل ملا، خاص طور پر صوبے کے اندرونی مقامات سے جو اُن کی سیاسی طاقت کی جان ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ ’’بدعنوانی میں لپٹے ہوئے نواز مخالف بیانیے‘‘ نے اُن کے ووٹ بنک کو متاثر نہیں کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات پارٹی کیلئے خوش آئند ہو لیکن اس سے نواز شریف کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ وہ نااہلی کی وجہ سے سیاست سے الگ ہو چکے ہیں۔ نہ ہی اس سے اُن کے خلاف نیب میں کیسز پر کوئی فرق پڑے گا کیونکہ نیب عدالت میں اُن کی سماعت اُنہی جج صاحب کی کڑی نگرانی میں ہو گی جنہوں نے اُن کے خلاف متنازع فیصلہ سنایا ہے۔
اس وقت یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ غیر منتخب شدہ قوتوں کے سیاسی نظام پر اثر انداز ہونے کی بابت نواز شریف جو چبھتے ہوئے سوالات اٹھا رہے ہیں، اُس سے اُنہیں ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ نااہل قرار پانے اور سیاست سے بے دخل ہونے کے بعد اب وہ ’’نظام کی اصلاح‘‘ کی جنگ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ جو اصلاحات وہ اقتدار میں رہتے ہوئے نہ لائے، اب اقتدار سے باہر ہونے کے بعد کس طرح لا سکتے ہیں؟ بہت مشکل ہے۔ جو نعرہ اُنھوں نے جی ٹی روڈ پر لگایا ہے، اُسے عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ کیا کر سکتے ہیں؟
ہو سکتا ہے کہ وہ پارٹی میں اپنی مرکزی حیثیت اور اپنے ساتھیوں کی وفاداری کے بل بوتے پر اسمبلی میں آئینی ترامیم اور قانون سازی کا یجنڈا آگے بڑھائیں جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے پسِ پردہ رہ کر ڈور ہلانا اور عدلیہ کیلئے اپنے آئینی دائرے سے باہر قدم نکالنا مشکل بنا دے، لیکن اس قانون سازی کیلئے اُنہیں دیگر جماعتوں، خاص طور پر پی پی پی کی حمایت درکار ہو گی۔ اس کیلئے ایک وسیع تر سیاسی معاہدہ اور مفاہمت درکار ہو گی۔ کیا پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے ہوئے نواز شریف ایسی مفاہمت عمل میں لا سکتے ہیں؟ یہ اُن کیلئے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہو گا۔
مزید برآں، وہ جتنے زور و شور سے اس بیانیے کو پھیلائیں گے کہ غیر منتخب شدہ قوتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے، اُن کی سیاست میں واپسی اُتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی۔ وہ کبھی بھی ان قوتوں کیلئے قابلِ قبول نہیں رہیں گے۔ عوامی مقبولیت اور مرکزی حیثیت ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ آپ جتنے مقبول ہوں گے، آپ کو گرانے کیلئے اتنی ہی زیادہ کوششیں کی جائیں گی۔ کسی منصوبے کی کامیابی یا ناکامی میں آپ کا جتنا مرکزی کردار ہو گا، آپ کو تباہ کرنے کی اتنی ہی زیادہ کوششیں کی جائیں گی۔
کوئی بھی غیر جانبدار مبصر جانتا ہے کہ ڈیڑھ سال کے بعد طاہر القادری کو کیوں واپس بلایا گیا ہے؟ وہ براہِ راست دھمکیاں دے رہے ہیں، بالکل جس طرح شیخ رشید اور بابر اعوان اُن سے اور اُن کے خاندان سے دولت چھین کر جیل میں ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ تمام ’’شواہد‘‘ بتاتے ہیں کہ نواز شریف اپنی خواہش کے مطابق ’’شہید‘‘ بننے تو جا رہے ہیں لیکن اُنہیں شہادت کا رتبہ عطا نہیں ہو گا۔ اُن کے خلاف جاری میڈیا مہم اُنہیں کھل کر ’’قاتل اور بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ اشتعال عام کر رہی ہے کہ اُنہیں سرعام کسی بلند کھمبے سے پھانسی دینی چاہئے۔ یہ مہم اُن کے خلاف جذبات اور جنون کی آگ دہکا رہی ہے۔ ایسے بھی واضح شواہد موجود ہیں کہ اگر وہ موجودہ راستے پر چلتے رہے تو جلد ہی اُن کی جماعت بہت سے حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور اس طرح وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاسی نقشے سے مٹ جائیں گے اور سیاسی روح سے خالی لیڈر احتجاج نہیں کرتے، اور نہ ہی پارٹی کے بغیر کوئی احتجاج ہوتا ہے۔
اس وقت نواز شریف جذبات کے گھوڑے پر سوار ہیں کیونکہ ان کی جماعت مرکز اور پنجاب میں حکومت کر رہی ہے اور اُنہیں عوامی مقبولیت بھی حاصل ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ خطرات کھوکھلی دھمکیاں ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں زمین پر قدم رکھ کر کوئی قابلِ عمل ایجنڈا بنانا پڑے گا اور ایجنڈا محض نعروں، بیانات اور انا کی تسکین پر مبنی نہ ہو۔ پارلیمنٹ سے باہر بیٹھ کر خود کو طاقت کا ایسا مزکر سمجھنا جو سیاسی نظام کو درست کرنے کی اہلیت رکھتا ہو، خود فریبی اور رومانوی التباس کے سوا کچھ نہیں۔ سیاسی حقیقت پسندی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
نواز شریف نعرے لگاتے، دھمکیاں دیتے، وعدے کرتے اور تخیلات کا جال پھیلاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر سفر کر گئے لیکن اصل مسافت ابھی باقی ہے۔ یہ سفر سیاسی اور معروضی حقائق سے اٹا ہوا ہے۔ اگر ان مسائل سے نمٹنے کیلئے نواز شریف کے پاس کوئی حقیقت پسندانہ منصوبہ نہیں ہے تو وہ خود کو ’’گرینڈ ٹرمپ روڈ‘‘ کے درمیان کھڑا پائیں گے۔ یہاں اُن کی خواہشات اور آرزوئیں اُن طاقتوں کے ٹرمپ کارڈ کے سامنے دب جائیں گی جن سے وہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی نہ نمٹ پائے۔

تازہ ترین