• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرس کو دل والوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ محبت کی علامت ہے۔ اس کی فضائوں میں وفائوں کے نغمے گونجتے ہیں۔ دنیا بھر سے اہل دل کھنچے کھنچے اس کے دیدار کو آتے ہیں۔ سارا سال اس کی سڑکوں پر رونقیں پہرہ دیتی ہیں لیکن گرمیوں میں یہ ہلچل اور رونق کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پیرس دنیا میں اپنے جداگانہ کلچر، تاریخ، موسم اور تہذیب و تمدن سے گہری رغبت رکھنے والا ایسا شہر ہے جس کی خوبصورتی ایک مثال ہے۔ یوں کہئے کہ لفظ پیرس ذہن میں آتے ہی خوبصورت منظر آنکھوں کے آگے رقص کرنے لگتے ہیں۔ پیرس تہذیب و تمدن کی آماجگاہ ہے۔ اپنی تاریخ سے اس شہر کے لوگوں کو صرف محبت نہیں بلکہ فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی 17 ویں اور 18 ویں صدی کی تعمیر کردہ عمارتیں اور سڑکیں اسی حالت میں رکھی گئی ہیں۔ پیرس میں اتنے ثقافتی اور تفریحی مقامات ہیں کہ صرف ان کے نام لکھنے سے ہی یہ کالم ختم ہو جائے گا۔ زندگی میں مسلسل دوسری بار مجھے عید آزادی یورپ میں گزارنے کا موقع ملا۔ پچھلی بار ناروے اور اس بار پیرس میں۔ پاکستان ایمبیسی میں منعقدہ 70 سالہ آزادی کی تقریب میں شرکت کر کے دل باغ باغ ہو گیا۔ سفیرِ پاکستان جناب معین الحق صاحب جب دھیرے دھیرے پرچم کو بلند کر رہے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہاں بیٹھے ہوئے حاضرین کی دل کی دھڑکنیں اس پرچم کے ساتھ بندھی ہوں اور جوں جوں پرچم اوپر جا رہا تھا ہمارا حوصلہ، فخر اور ارادہ بھی بلندیوں کی طرف گامزن تھا۔ ایک عہد ہمارے دلوں میں انگڑائیاں لے رہا تھا کہ اب ہمیںاس پرچم کی توقیر کو اپنے عمل سے عظیم تر بنانا ہے۔ چھوٹے معصوم بچوں نے جب ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ گایا تو شاید ان کی آواز میں وہ ترنم اور موسیقیت تو پوری طرح موجود نہ تھی مگر جوش، جذبہ اور ولولہ ایسا کہ مُردہ دلوں میں بھی جان بھر دے۔ پیرس میں پاکستانیوں نے سبز رنگ یا جھنڈے والی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔ اسی طرح لڑکیوں کا لباس بھی جھنڈے کے ملتے جلتے رنگوں کا عکاس تھا۔ یہ پہلا جشنِ آزادی ہے جسے پاکستانیوں نے ملک اور بیرونِ ملک ایک ساز کی لے پر گنگنایا۔ اس سے قبل منائی جانے والی 14 اگست کی تقریبات روایتی کلمات اور پروگراموں تک محدود تھیں، بچے سو کر چھٹی گزار دیتے تھے اور بڑے بھی اس دن کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے تھے جو دینی چاہئے لیکن اس بار لوگوں نے اسے سب سے بڑے تہوار کے طور پر منا کر وطن سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے یوں کہئے اس بار ہم نے 14 اگست کو دل سے منا کر اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کیا ہے۔ مجھے پاکستان سے اپنے بھتیجے، بھتیجیوں، بھانجے، بھانجیوں کی بہت ساری تصویریں وٹس ایپ پر موصول ہوئیں جس میں انہوں نے خوبصورت لباس اور سر پر پرچم کو تاج کی طرح پہنا ہوا تھا۔ یہی منظر پیرس میں بھی دیکھنے کو ملا۔ وہ بچے جو یہاں پیدا ہوئے انہیں بھی معلوم ہے کہ ہمارا اصل وطن پاکستان ہے۔ یہ ساری صورت حال مجھ جیسے محبِ وطن انسان کے لئے جس کو اپنے وطن سے محبت نہیں عشق ہے اور وطن کا خیال ہر وقت اس کے تخیل میں پرچم کی طرح لہلہاتا رہتا ہے، کے لئے بہت حوصلہ افزا ہے۔ میرے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والی فرانس کی ایک بڑی کاروباری شخصیت چوہدری اعجاز جو کئی دہائیوں سے پیرس میں مقیم ہیں لیکن آج بھی ان کی محبتوں کا مرکز پاکستان ہے۔ ایک پاکستان ان کے دل میں اور ایک اپنے اردگرد بسا رکھا ہے۔ ایسے لوگ صحیح معنوں میں ملک کے سفیر ہوتے ہیں۔
فرانس علمی، ادبی اور تہذیبی قدروں سے مالا مال ملک ہے۔ اصل دولت ورثہ، تہذیبی رجحانات اور ادب ہوتے ہیں اور فرانس ان معنوں میں دنیا کا امیر ترین اور ممتاز ملک ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی اپنی تہذیب کو اپنانا اور اس پر فخر کرنا ہے۔ صد شکر کہ ستر سالوں بعد ہم لوگ بھی ایک قوم بن کر اُبھر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی شناخت اور کلچر پر فخر محسوس ہونے لگا ہے اور یہ سبق کسی طاقت نے نہیں حالات کے جبر نے ہمیں سکھایا ہے۔ 14 اگست کا دن اس بار سب سے بڑا تہوار بن کر اُبھرا ہے۔ ایفل ٹاور کے قریب سخت دھوپ اور گرمی سے گھبرا کر میں ایک جگہ سستانے کو بیٹھ گئی۔ یہاں ہائے کیا چیز غریب الوطنی کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ اردگرد بلکہ جس کو جہاں جگہ ملے اور جہاں دل چاہے وہ بیٹھ سکتا ہے۔ میں نے اپنی سبز چادر کو سر پر تان لیا تا کہ کم پتوں والے درخت سے چھن کر آنے والی دھوپ سے محفوظ رہ سکوں۔ یہاں کی دھوپ میں ایک خاص کاٹ ہوتی ہے۔ سو اُس دھوپ کے ساتھ ساتھ اپنے سبز آنچل کو لہرانے کا تجربہ اتنا دلکش تھا کہ لمحہ بھر میں فرحت بخش احساس نے میرے دِل میں گدگدی کی اور بغیر کسی وجہ کے ہنس کر میری آنکھوں میں چمکنے لگی۔ پاس سے گزرتی ایک سیاح خاتون نے رُک کر میری سبز چادر کو دیکھا اور کہا، Oh it looks very beautiful indeed. میں نے بلا سوچے سمجھے کہا، No it's my flag. I am celebrating my National day. وہ بھی خوش ہو گئی اور مبارکبادیں دینے لگی۔ یہ پورا دن میں نے پیرس میں اس خوشی کے ساتھ گزارا جو بچپن میں عید کے موقع پر نئے کپڑے اور عیدی ملنے پر محسوس ہوتی تھی۔ پاکستانی سفارت خانے کے علاوہ مختلف علاقوں میں پاکستانیوں نے تقریبات کا اہتمام کیا اور اپنی اپنی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے اور اس کی ترقی کے لئے کوشش کرنے کا عہد کیا۔ پیرس میں بہت سے پاکستانی دوستوں کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور دانشوروں سے بھی مکالمے کا موقع ملا۔ وہ سب پاکستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے مجھے کرید رہے تھے حالانکہ مجھ سے زیادہ خبریں ان کے پاس تھیں یا شاید وہ ان خبروں کے اظہار میں آزاد تھے۔ وہ ہمارے اداروں کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے جن کا ذکر کرنے کی سکت میرے قلم میں بالکل نہیں ہے۔ بہرحال اگر ان کی گفتگو کا خلاصہ پیش کروں تو ان کے مطابق نواز شریف صاحب بالکل معصوم ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اداروں کو اپنا وقار بحال کرنے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔وہ وقت بہت المناک ہوتا ہے جب لوگ اپنے اعلیٰ ترین اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیں۔ مجھے ہر پاکستانی کی آنکھوں میں تمام اداروں کے لئے دردمندانہ اپیل لکھی نظر آئی کہ خدارا اب تو آپ لوگ بھی ایک پیج پر آ جائیں۔ ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں، ہماری ناراضی اور غصہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب سب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے فرائض سرانجام دیں گے تب ہی ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی طرف بڑھے گا اور دنیا اس پاکستان سے متعارف ہو گی جس کا خواب علامہ اقبال کی دانش، قائداعظم کی حکمت اور کروڑوں مسلمانوں کی آرزوئوں نے دیکھا تھا۔ 2017ء کا 14 اگست ہمارے لئے بہت ساری بشارتیں لے کر آیا ہے۔ آئیے خوشی کی دستک کو سنیں اور دل میں بسی محبتوں کو اظہار کا موقع دیں۔ چوہدری اعجاز، اسد رضوی، ڈاکٹر ارشاد، کفایت نقوی، ایاز محمود اور عمر نے میرے اس دورے کو جو خوبصورتی عطا کی میں اس کے لئے ان کی شکر گزار ہوں۔ میری دعا ہے کہ خدا میرے ہم وطنوں کی محنت میں برکت عطا کرے، وہ جس ملک میں رہتے ہیں اس کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کو اپنا شعار بنا کر پاکستان کا وقار بڑھائیں۔

تازہ ترین