• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کارواں کی کامیابی کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر ہنگامہ خیز اور جذبات انگیز تھا بلکہ اس کی کامیابی کاپیمانہ اس کی مشن اور مقاصد میں کامیابی ہوتی ہے۔ بلاشبہ میاں نوازشریف کا جی ٹی روڈ مارچ ہنگامہ خیز تھا اور بعض مقامات پر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں بھی کامیاب رہا لیکن یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ یہ احتجاجی جلوس، عوام کو میاں صاحب کی معصومیت کا یقین دلانے میں کس حد تک کامیاب رہا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کارواں ہمدردی پیدا کرنے اور عدلیہ کے فیصلے میں شکوک کے شگاف ڈالنے میں کسی حد تک کامیاب رہا جس سے بہرحال سیاسی مفادات حاصل ہوں گے اور ووٹ بنک کو قائم رکھنےمیں مدد ملے گی۔ گزشتہ تین دہائیوں کی سیاست پر نگاہ رکھنے والے جانتے تھے کہ میاں صاحب نااہلی کی صورت میں خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ خاموشی سے گھر چلے جانے سے جو سیاسی نقصانات ہوتے شاید ان کا ازالہ مستقبل میں بھی نہ ہوسکتا۔ سیاستدان کا سارا کیریئر اور مستقبل ہی سیاسی قوت اور ووٹ بنک سے منسلک ہوتا ہے اس لئے وہ ہر قیمت پر اپنا مستقبل محفوظ بنانےکی کوشش کرتا ہے۔ میاں صاحب کا عوامی جلسوں اور جلوسوں میں یہ پوچھنا کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟ قابل فہم ہے اور سیاسی جلسوں کی تقریروں کے تقاضوں کے عین مطابق ہے لیکن تھوڑی سی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ان کے سیاسی رفقا، حواری اور بعض تجزیہ کار عدلیہ کے فیصلے کے ساتھ پس منظر اور محرکات وابستہ کردیتے ہیں اور اس میں مشرف کے خلاف مقدمے سے لے کر غیرسیاسی قوتوں کی ناراضی اور سی پیک کو شامل کردیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ آئین کی شقوں 62۔63 کے مطابق کیا گیا اور ٹیکنیکل گرائونڈ پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ ہر شخص کو فیصلے سے اختلاف کا حق حاصل ہے اور ہر شخص آئین کی رو سے اس کی توضیح و تشریح کرسکتا ہے لیکن جب تجزیہ کار اور دانشور فیصلے کے پس منظر میں سیاست شامل کردیتے ہیں تو گویا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئینی نہیں بلکہ سیاسی قرار دینے کی جسارت کرتے ہیں۔ کیا آپ اس مہم کے مضمرات سمجھتے ہیں؟ عدلیہ سیاسی فیصلے دے جیسے جسٹس منیر نے 1954میں نظریہ ٔ ضرورت ایجاد کرکے قوم کی گردن میں غلامی کا طوق ڈال دیا اور مشرف تک کے مارشل لائوں کو عدلیہ اسی کے تحت جائز قرار دیتی رہی تو ہم عدلیہ کو مطعون کرتے ہیں اور اگر وہ خالصتاً آئینی فیصلہ دے تو ہم اس کی آئینی تشریح کے ساتھ سیاسی محرکات وابستہ کرکے عدلیہ کے احترام میں شگاف ڈالتے ہیں۔ بلاشبہ موجودہ سیاسی مہم نے عدلیہ کو تمسخر کا نشانہ بنانے اور اس کے وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے جو ہرگز قومی خدمت نہیں۔
آئین اور قانون کی جنگ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر لڑی جائے تو نتیجہ خیز بھی ہوتی ہے اور قومی ادارے بھی نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس حوالے سے میاں صاحب کی نظرثانی کی اپیل بروقت اور نہایت مناسب فیصلہ ہے۔ اس اپیل میں میاں صاحب نے کچھ بنیادی نکات اٹھائے ہیں اور آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے پر اعتراضات کئے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے اور انہیں اپنے حق کے حصول کے لئے آئینی جدوجہد کرنی چاہئے۔ اگر نظرثانی کی اپیل کے نتیجے کے طور پر انہیں کچھ ریلیف مل جائے تو شاید اس سے ان کا غم و غصہ تھوڑا سا کم ہو جائے۔ ان کی مکمل تشفی و تسلی تو صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ عدالت انہیں بحال کردے لیکن بظاہر اس کے امکانات نظر نہیں آتے لیکن اگر نظرثانی کے نتیجے میں تاعمر نااہلی کا ڈرائونا خواب ہی ختم ہو جائے تو شاید کسی حد تک ان کی تالیف قلب ہوجائے ورنہ سیاسی درجہ حرارت یونہی بڑھتا رہے گا۔ احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قومی ادارے مسلسل نفرت اور دبائو کا نشانہ بنے رہیںگے۔
28جولائی سے لے کر اب تک کی سیاسی پیش رفت پر نگاہ ڈالی جائے تو بہت سے پہلو قابل توجہ نظر آتے ہیں۔ ان پر تاریخ اور وقت اپنے فیصلے دیں گے لیکن میں فی الحال اس پیش رفت کے صرف دو پہلوئوں سے محظوظ ہو رہا ہوں جن کا ذکر کرنےکو جی چاہتا ہے۔ اول تو مجھے لگتا ہے کہ عدلیہ کے ہاتھوں میاں صاحب کی معزولی اور نااہلی کے صدمے اور شدید غیرمتوقع جھٹکے نے محترم کیپٹن محمد صفدر صاحب کی باطن کی آنکھیں کھول دی ہیں جو شایداس سے قبل اقتدار اور دولت کے غرور نے بند کر رکھی تھیں۔ کل ہی ان کی تازہ قلبی واردات کا حال پڑھ کر میں محظوظ ہوا اور ان کی روحانیت کا قائل ہو گیا۔ ان کا فرمان تھا کہ ’’بھٹو کو سلام۔ میں بھٹو کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایسا بیان کوئی صاحب ِ حال صوفی ہی دے سکتا ہے جس کی نگاہ سے جنت تک کے پردے ہٹ جائیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے سسر کی سیاست کا نقطہـ ٔآغاز ہی پاکستان سے بھٹوازم کا خاتمہ تھا۔ میں آج کل شریف فیملی کی بھٹو سے محبت اور عقیدت سے محظوظ ہوتا ہوں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے کئی انٹرویوز چھپے جن میں انہوںنے کہا کہ انہیں چاند میں بھٹو نظر آتا ہے۔ کیپٹن صفدر کو بھٹو صاحب جنت میں نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عدلیہ کے دو اہم فیصلوں نے دو بڑے سیاسی گھرانوں کو مشترکہ درد اور زخم کے رشتے میں یکجا کردیا ہے۔ بہرحال میری گزارش ہے کہ غم و غصے کی کیفیت کے سبب کیپٹن صفدر قائداعظمؒ کو نشانہ نہ بنائیں۔ قائداعظمؒ کی امانت و دیانت مسلمہ حقیقت ہے اور عالمی و قومی تاریخ اس کا اعتراف کرچکی ہے۔ چاند پر تھوکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے روحانی تصرفات کو بھٹو تک محدود رکھیں اورقائداعظمؒ کو معاف کردیں۔ قائداعظمؒ پاکستان نہ بناتے تو میرے محترم میاں نواز شریف تین بار تو کیا وزیراعظم ہی نہ بن سکتے۔ اگر آپ قائداعظمؒ کا احسان نہیں مانتے تو نہ مانیں لیکن کم سے کم انہیں اپنی سطح پر نہ لائیں۔ قائداعظمؒ نے بیرون ملک اثاثے بنائے نہ اقتدار کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ قومی خزانے کی حفاظت اور تقدس کا حق ادا کردیا اور موت سے قبل اپنی تمام جائیداد اور جمع پونجی قوم کو دے دی۔ کیا ان سے موجودہ لیڈروںکا موازنہ کیاجاسکتا ہے؟
کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اختصار لازم ہے۔ موجودہ سیاسی پیش رفت کا دوسرا مثبت پہلو جس سے میں محظوظ ہوا ہوں وہ ہے اس سیاسی مہم سے انقلاب برآمد کرنا۔ سیاسی جلوسوں میں قائدین کے انقلاب کے نعرے محض فریب ِ نظر ہوتے ہیں لیکن جب کوئی سیاستدان طویل عرصے کی حکمرانی کے بعد عدلیہ کے جھٹکے سے بیدار ہو اور فوراً انقلاب لانے کا اعلان کردے تو انسان محظوظ ہونے کے علاوہ اور کیاکرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کیسا انقلاب لائیں گے؟1997کی انتخابی مہم میں میاں صاحب نے قوم سے دوتہائی اکثریت مانگی تھی تاکہ وہ اٹھاون ٹو (بی) کے صدارتی اختیار کو ختم کرسکیں جو وزرا اعظموں کی گردنیں کاٹ رہا تھا۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔ اب بھی رائے عامہ کو تیار کیا جارہا ہے۔ انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) قوم سے دوتہائی اکثریت مانگے گی تاکہ آئین سے 62۔ 63 کی شقوں کو ختم کیا جاسکے اور وزیراعظم کی پانچ سالہ میعاد کو محفوظ بنانے کے لئے آئین میں کچھ مزید ترامیم کی جاسکیں جن میں سیاسی حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیار کو محدود کرنا بھی شامل ہوگا۔ اگر نظرثانی کی اپیل میں میاں صاحب کو کوئی ریلیف نہ ملا تو انہیں آئینی ترمیم اور پارلیمنٹ کے ذریعے واپس لانے کی حکمت ِ عملی وضع کی جائے گی جو پیچیدہ بھی ہےاور خطرناک عمل بھی..... فی الحال انتظار کیجئے اور دیکھئے کے سپریم کورٹ نیب کی نگرانی کے حوالے سے کیا فیصلہ دیتی ہے، نیب کے ریفرنسز کس کروٹ بیٹھتے ہیں؟ محترمہ کلثوم نواز پر اعتراضات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کیا فیصلہ دیتا ہے اور نظرثانی کی اپیل سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ رہا انقلاب، تو اس کا مقصد وزیراعظم کو پانچ سال کے لئے محفوظ بنانا ہے۔ اس سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔

تازہ ترین