• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نقطہ نگاہ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارے کئی اہم حلقوں کوآئین یاد تو آیا‘ چاہے کسی کی ان تجاویز کے پیچھے مثبت سوچ کارفرماہے یامنفی۔اس سلسلے میں سب سے پہلے میں فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمرباجوہ کی طرف سے کچھ عرصہ سے آئی ان تجاویز کاذکر کرونگا جن کے ذریعے انہوں نے آئین کے مطابق اقدامات کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے ۔میرے خیال میں یہ ایک انتہائی مثبت تبدیلی ہے کہ فوج کے سربراہ نے نہ فقط قوم کو مگر بظاہر ملک کے اہم اداروں کے سربراہوں کو خاص طورپر کئی دنوں سے ملک کے کچھ حصوں میں پیداکی جانے والی ’’ناپسندیدہ‘‘ صورتحال کے پس منظر میں یہ تجویز دی ہے۔ لہٰذا فوج کے سربراہ کی یہ تجویز انتہا ئی قابل تعریف ہے۔ فوج کے سربراہ کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضاربانی کی طرف سے بھی ایک انتہائی اہم تجویز آئی ہے کہ ملک کے اہم سربراہوں کو بیٹھ کر آئین کے تحت حالات کو سازگار بنانے کے سلسلے میں ڈائیلاگ کرناچاہیے۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے ملک کے کچھ سیاستدانوں اورسینئر دانشوروں نے اس تجویز پر تنقید کی ہے حالانکہ مجھے اس تجویز پر تنقید کرنے کاکوئی جائز سبب نظرنہیں آرہاہے یہ تو ایک اچھی بات ہوگی کہ اہم ادارے جن میں پارلیمنٹ ‘حکومت‘ عدلیہ اور فوج کے ادارے شامل سمجھے جارہے ہیں ان کے سربراہ ایک جگہ بیٹھ کر ملک اورجمہوریت کو درپیش خطرات سے نکالنے اور ملک بھرمیں ایک وسیع تر مفاہمت پیداکرنے کے سلسلے میں ڈائیلاگ کریں۔اگرواقعی ایساہوتاہے تو یہ ملک کی تاریخ کاایک اہم کارنامہ ہوگا اوراگر ایسی کوشش کے مثبت نتائج نکلتے ہیں تو نہ فقط یہ طریقہ کار ہرمشکل وقت میں استعمال کیاجاسکتاہے مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ اس ’’طریقہ کار‘‘ کو باقاعدہ آئین کاحصہ بنایاجائے۔ آئین کے حوالے سے تیسری تجویز حکمران پارٹی کے سربراہ اورسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے سامنے آئی ہے حالانکہ ابھی یہ تجویز مبہم ہے اسے ابھی واضح شکل میں ساری متعلقہ تفصیلات کے ساتھ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ابتدائی طورپر نواز شریف کی طرف سے جوتجویز سامنے آئی اس کے مطابق آئین میں تبدیلی کرکے ملک میں ایک نیانظام قائم کرنے کی بات کی گئی تھی مگر بعد میں پی ایم ایل (ن) کے کچھ رہنمائوں کی طرف سے یہ وضاحت کی گئی کہ آئین میں ’’ترمیم کرکے اس کی دو شقوں 62اور 63کو تبدیل کیاجائے ۔میرے خیال میں یہ ایشو اتنا اہم ہے کہ جس کی طرف سے جو بھی تجویز آئے وہ انتہائی وضاحت سے سامنے آئے اس سلسلے میں میری تجویز ہے کہ نواز شریف کی ٹیم کے ذہنوں میں آئین میں تبدیلیاں لانے کے بارے میں جوبھی تصور ہے اس کو سامنے رکھ کراپنی اہم تجاویز پرمشتمل ایک ’’ڈرافٹ‘‘ تیار کیاجائے اوراب کی بار یہ ڈرافٹ پارلیمنٹ میں زیربحث لانے سے پہلے براہ راست عوام کے غور کرنے کے لئے پیش کیاجائے۔ میں یہ تجویز اس وجہ سے بھی دے رہاہوں کہ ابتدائی طورپر ملک کو ابھی تک جو بھی آئین ملے ہیں ان کے تحت عملی طورپر قومی اسمبلیاںفقط سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور معاشرے کے ’’اپرکلاس‘‘ کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئیں۔ اس تجربے کے نتائج کو ساری قوم نے اچھی طرح دیکھ لیاہے کہ یہ اسمبلیاں ملک میں جوبظاہر قائم ہوتی ہیں ان میں عام لوگوں کی حیثیت غلاموں سے زیادہ نہیں جبکہ ملک کے مالک سرمایہ دار‘ جاگیردار اوراپرکلاس ہوتے ہیں کیا ملک اس مقصد کے لئے آزاد کرائے جاتے ہیں ۔کیا تحریک آزادی کے دوران قائد اعظم یاتحریک آزادی کی قیادت نے کبھی ایسی کوئی بات کی۔ وقت آگیاہے کہ حالات کو درست کیاجائے۔ حالات اس طرح درست ہوسکتے ہیںکہ آئین کی بنیاد اس شق کوبنایاجائے کہ اسمبلیوں کے امیدوار فقط متوسط اورنچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ لوگ ہوں۔اس تجویز کے علاوہ میری دوسری تجویز یہ ہے کہ آئین کی دوسری بنیاد یہ شق ہونی چاہیے کہ پاکستان ایک حقیقی وفاق میں حقیقی طورپرتبدیل ہوجائے ۔اگرہمارا آئین نچلے طبقے کے لوگوں کے کندھوں پر جمہوریت کی بنیاد نہیںرکھتا اور ساتھ ہی اگرسارے صوبوں کے مساوی حقوق نہیں دیئے جاتے تواب شاید اسے آئین کے خلاف عام لوگ اورچھوٹے صوبے ملک کے لئے کوئی مشکل صورتحال نہ پیداکردیں ۔ عقلمندی کا تقاضاہے کہ آئین میں ضروری ترمیم کرکے اس میں عام لوگوں اور چھوٹے صوبوں کی خواہشات کا احترام کیاجائے۔ ان مجوزہ ترمیموں کی اصل شکل کیاہونی چاہئے اس سلسلے میں اول تو ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ساتھ ہی بعد میں ہرضلع ہیڈکوارٹر میں ایسے مذاکرے منعقد کئے جائیں جس میں نئے آئین کے تحت عام لوگوں کے کیاحقوق ہونے چاہئیں ،کے بارے میں ٹھوس تجاویز سامنے آئیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چھوٹے صوبوں کواہمیت دیکر ان صوبوں کے دانشوروں سے ضروری تجاویز حاصل کی جائیں۔ خود مجھے بھی اس سلسلے میں کچھ تجاویز ’’جنگ‘‘ کے کالم کے ذریعے قوم کے سامنے رکھنی ہیں کہ صوبائی خو د مختاری کی کیاشکل ہونی چاہیے فی الحال میں پاکستان میں بننے والے آئینوں کے ذریعے ملک اورقوم سے جو مذاق ہوتارہا اس کا ذکر کروںگا۔ میں سب سے پہلے تو یہ بات یاد دلائونگاکہ جناب قائداعظم محمدعلی جناح کاصوبائی خودمختاری کے بارے میں کیا تصورات تھے؟ اورباتیں چھوڑیں، جناب 1940میں قائداعظم کی قیادت میں جو ’’قرارداد پاکستان‘‘ منظورکی گئی اس میں صوبائی خودمختاری کاکیا تصور تھا؟یہ قرارداد پاکستان کی تاریخ کی بنیاد ہے۔ اسے پڑھیں تو ۔اس میں تو کہاگیاہے کہ پاکستان کے صوبے خودمختار ہوں گے، مگرہوا کیا۔ قائداعظم کے انتقال کرنے اور بعد میں پنڈی کے لیاقت باغ میں قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک بیوروکریٹ ملک غلام محمد کیسے ملک کا گورنر جنرل بنایاگیا، یہ کس آئین کے تحت کیاگیا، وقت آگیا ہے کہ ہم یہ باتیں انتہائی تفصیل سے عوام کے سامنے لائیں۔ پھر یہ منظر بھی ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان کے اس گورنر جنرل نے ملک کے اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، جن کا تعلق بھی سابق مشرقی پاکستان سے تھا اور وہ ایک مہذب سیاستدان تھے۔اس وقت ملک کے اتنے وسائل نہیں تھے کہ ملک کے وزیر اعظم ملک کے اندر ایک شہر سے دوسرے شہر ہوائی جہاز کے ذریعے جاسکیں۔ لہٰذا وہ راولپنڈی میں تھے جہاں سے کراچی آنے کے لئے وہ ٹرین میں سوار ہوئے، ٹرین میں سوار ہوتے وقت انہیں وزیراعظم کے لائق پروٹوکول پیش کیاگیا۔ مگر جب انکی ٹرین کراچی پہنچی تو کراچی ریلوے اسٹیشن پر ملک کے وزیراعظم کے لئے پروٹوکول تو کیا کوئی فرد بھی استقبال کرنے کے لئے موجودنہیں تھا۔ پنڈی سے وزیراعظم کے ساتھ سفرکرنے والے حکومت کے اعلیٰ افسران حیرت زدہ ہوگئے کہ یہ کیاہورہاہے وزیراعظم کا استقبال کرنے کے لئے کراچی اسٹیشن پر کیوں کوئی موجود نہیں؟اس مرحلے پر ایک صاحب نے بتایا کہ رات گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کو وزارت عظمیٰ سے ہٹادیا ہے اورانہوں نے تقریر میں یہ بھی بتایا کہ اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ، ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ کو ملک میں واپس بلاکر نیا وزیراعظم بنایاگیاہے۔ یہ تبدیلی بھی ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے کہ یہ احکامات کون سے آئین اور قانون کے تحت جاری کئے گئے۔ ان ہی دنوں ملک پر ون یونٹ مسلط کرکے چھوٹے صوبوں کو مرکز کا غلام بنایا گیا۔

تازہ ترین